نہیں ، نہیں پھانسی نہیں
تحریر۔ محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ روز جیسے ہی موبائل اٹھا کر سوشل میڈیا کا سیر کیا تو ایک خبر چاروں سمت گردش کرتے ہوئے دکھائی دی. تھوڑی دیر کے لیے خبر پر دھیان دیکر کچھ اس بارے میں لوگوں کے خیالات اور تاثرات پڑھے. خیر باہر کے لوگ تو اپنے من کا تجزیہ کررہے تھے اور کچھ درست تو کچھ غلط کہہ رہے تھے. یہ فیصلہ گذشتہ روز خصوصی عدالت نے سنائی تھی. میں اپنے نادانی کی کیفیت میں یہ سمجھ کر خبر کو ادھورا پڑھ کر چھوڑ دیا کہ عدالت نے یہ فیصلہ بلوچستان پر خونی آپریشن, نواب اکبر بگٹی سمت ہزاروں بلوچ نوجوان, بوڑھے, بچے اور عورتوں کے شہید کرنے کے سزا میں یہ فیصلہ سنایا. لیکن پھر مکمل پڑھنے پر معلوم ہوا نہیں, نہیں ابھی تک تو اس قوم کے اُوپر آزمائش کے امتحان باقی ہیں.
بڑی عجیب کیفیت طاری تو اس وقت ہوئی جب یہ خبر اس سرزمین کے لوگوں کے درمیان اپنی گردشی حالت میں ان کے تاثرات مانگ رہی تھی. حیرانگی تب ہوئی جب اپنے لوگوں کو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا. ہے نہ جاہلیت کی بات. ایک ڈکٹیٹر ظالم حکمران جو اپنے دور میں بلوچستان میں خون کے ندی بہائے آج بغیر کسی حساب کتاب, پوچھ گچھ کے پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ صادر ہوا اور ہم سینہ تان کر فخریہ انداز میں کمنٹ کر رہے ہیں ایک ظالم اور غدار حکمران کو پھانسی کا حکم ہوا ہے. پھانسی ہوگا بھی کہ نہیں. وللہ عالم الغیب.
خیر غدار تو ہم نہیں کہہ سکتے. کیونکہ اُس نے جو کچھ بھی کیا شاید اپنے لوگوں کے وفا میں کیا. اپنے لوگوں کے فائدے کے لیے کیا. اپنے آقاؤں کے حکم کی تکمیل میں کیا. اداروں کے آرڈر پر کیا. جو کچھ کیا اپنے قوم کی وفاداری میں کیا. اب غدار تو وہ نہیں غدار تو ہم ہیں کہ اپنے لوگوں کے خون کا حساب ان سے لیئے بغیر عیش عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں. غداری کے زمرے میں تو بلوچستان کے وہ لوگ آتے ہیں، جنہوں نے اس وقت اس ڈکٹیر کا ساتھ دیا. غدار تو وہ لوگ کہنے کے قابل ہیں جو اس ظالم حکمران کے خونی آپریشن اور قتل و غارت گری پر خاموشی کا روزہ رکھے تھے. پھر ہم کس بات پر خوشی کریں. کس منہ سے اسے غدار کہیں.
عجیب سوچ اور خیالات ہیں ہمارے لوگوں کے. ایک شخص اپنے پوری ٹیم کے ساتھ ڈیرہ بگٹی, کوہلو, کاہان اور بلوچستان کے ہر گاؤں دیہات میں خونی آپریشن کا آغاز کرکے بیشمار بلوچوں کو شہید کردیتا ہے. بوڑھوں, بچوں اور عورتوں میں تمیز کیے بغیر گولہ بارود برسائے. بلا خوف اور جھجک اور پُر اعتماد کے ساتھ یہ کہتا رہا ” ہم تمہیں وہاں سے ہٹ کریں گے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا”.
یہ بلکل ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص اکیلا اتنا ظلم اور قتل و غارت گری کرے اور پھر آرام سے فرار ہوکر باہر زندگی بسر کرے. وہاں جاکر بھی اپنے کیے پر نادم ہونے کے بجائے بڑی ڈھٹائی سے اپنے کیئے پر فخر کرتا رہے اور بلوچوں کو قاتل, غدار قرار دے.
اگر میں یہ کہوں شاید غلط نہیں ہوں گا کہ یہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک ریاست تھی. کیونکہ اس کے دور حکومت میں جتنا ظلم و زیادتی, قتل و غارت گیری ہوئی اس سے ہر ذی شعور انسان آسانی سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایک شخص تن تنہا اتنا ظلم اور قتل نہیں کرسکتا. محمد اشفاق اپنے آرٹیکل ” نواب اکبر شہباز بگٹی شہید” میں لکھتا ہے
“مشرف دسمبر 2005 میں بلوچستان کے دورے میں سب سے حساس ترین علاقے کوہلو جا پہنچا جہاں کچھ قبائلیوں کو زبردستی اس کا خطاب سننے کیلئے اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس جلسے پر کچھ راکٹ فائر ہوئے، پولیس کے کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ یہ مری قبائل کا علاقہ تھا۔ سترہ دسمبر 2005 میں فوج نے تیس ہزار سپاہیوں، بارہ گن شپ ہیلی کاپٹرز اور چار جیٹ فائٹرز کے ساتھ کوہلو سے آپریشن کا آغاز کیا جو بڑھتا ہوا ڈیرہ بگٹی اور مکران تک پھیل گیا۔ اس آپریشن میں چھیاسی افراد شہید ہوئے جن میں پچیس کے قریب مرد تھے جو علیحدگی پسند قرار پائے۔ باقی سب خواتین اور بچے تھے جو اپنے گھروں ہی میں آسمانوں سے برستی آگ میں جھلس کر رہ گئے”۔
خیر بے گناہ لوگوں کو مزاحمت کار شُو کرکے قتل کرنے کا رواج آج بھی جاری ہے.
اب ہمیں پرویز مشرف کی پھانسی پر خوشی کے بجائے سراپا احتجاج ہونا چاہیئے تھا. مشرف کو زندہ حالت میں ان ٹارچر سیلوں میں جہاں بلوچ نوجوانوں کےماتھوں کو ڈرل مشین سے چیر دیا, انگلیوں سے ناخن جدا کیئے, کرنٹ سے داغ دیئے, گولیوں سے چھلنی کردیئے, وہاں قید کرکے اس سے وہی سارے راز افشا کروائے جو وہ اپنے دور حکومت میں جن لوگوں کے ساتھ اور ان کے ایماء پر ظلم کے نئے داستان رقم کیے تھے. کرنٹ کے شاک دیکر ان سے یہ پوچھا جائے کہ کون کون تھے تمھارے ساتھ جب تم ڈیرہ بگٹی پر آپریشن کررہے تھے. آخر کس نے آپ کو پیراں سال نواب اکبر خان بگٹی پر پہاڑوں میں گولہ بارود برسانے کو کہا. کس نے آپ کو باشعور اور اپنی حقوق کا آواز بلند کرنے والوں کو لاپتہ کرنے کا مشورہ دیا. آخر وہ کون تھے آپ کے ساتھ جو بلوچستان پر نئے نئے طریقوں سے ظلم کے پہاڑ گرانے کا منصوبہ بندی کر تے تھے. کس نے اور کہاں سے آپ کو اتنی وافر مقدار میں اسلحے, گولے اور بارود مہیا کرکے آپ سے بلوچستان کو آگ و خون میں بدل دینے کا کام لیا. آپ کے ساتھ شریک ظلم میں اور کون کون تھے؟ ایک ایک کا نام بول…
مجھے تو اندیشہ اس بات کی ہے کہ کہیں اس سزائے موت کے فیصلے کے پیچھے وہ قوتیں تو کارفرما نہیں جو اس ڈکٹیٹر کے ساتھ شریک جرم تھے. کہیں وہ ادارے اضطراب میں مبتلا تو نہیں جو اس شخص کے کندھوں پر بندوق رکھ کر نواب بگٹی سمیت ہزاروں بلوچوں کو شہید کردیئے. وہ لوگ خوف کے عالم میں خصوصی عدالت سے سزائے موت کے فیصلے سنوانے میں کردار ادا تو نہیں کررہے، جو اس بے چینی میں ہیں، کہیں یہ بندہ بستر مرگ پر راز افشا نہ کرے.
بلوچستان کے لوگوں کو اس کے پھانسی نہیں چاہیے بلکہ اس قوم کو مکمل انصاف چاہیے. ہر اس شخص کو پھانسی پر لٹکانا چاہیے جس نے بلوچستان کے ساحل وسائل کی لوٹ مار کی ہے.. جس نے نوجوانوں کو صرف اس لیے لاپتہ کیے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے حق مانگتے ہیں. جس نے آپریشن میں ہزاروں بلوچوں کا خون بہایا ہے. اور اس بلوچ کو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکانا چاہیے جو اس ڈکٹیٹر کے حکومت میں اس کا ساتھ تھا. ان سرداروں کو بھی پھانسی پر لٹکانا چاہیے جو اس کو خوش آمدید کہہ کر اسے تحائف پیش کیے. ان تمام قوتوں اور اداروں کو بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے عبرت ناک سزا دینا چاہیئے جو معصوم لوگوں پر گولے برسا کر ظلم کی ایک تاریخ رقم کی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔