بندوق کی نوک پر کسی بلوچ کو پاکستانی نہیں بنایا جا سکتا – اختر مینگل

348

  آمر مشرف کو بیرون ملک بھیجا جا سکتا ہے تو چار بلوچ خواتین کو رہا کیوں نہیں کیا جا سکتا بندوق کے نوک پر کسی بلوچ کو پاکستانی نہیں بنایا جا سکتا شہید نواب بگٹی کے تابوت پر تالے لگانے والے کے کیسز پر حکومت تالے لگا کر کیا پیغام دینا چاہتی ہے عام مجرموں کے چہرے ڈھانپ کر پیش کیا جاتا ہے مگر ہماری ماؤں بہنوں کی تصویریں سوشل‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نشر کی جا رہی ہیں۔

حکومتی اتحاد سے الگ ہونا ہمارے لئے مسئلہ نہیں اپنی عزت‘ غیرت‘ ننگ و ناموس‘ سرزمین کیلئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں موجودہ حکومت نے بلوچستان کو توپ اور بندوق کے نظر کر دیا ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا آج ہماری ماؤں بہنوں پر مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں آج ہمارے بچوں‘ماؤں بہنوں کو اغواء کیا جارہا ہے کل یہ آپ لوگوں کے ساتھ بھی ہو سکتاہے آپ لوگوں کے گھروں میں بھی مائیں بہنیں ہیں کل ان کو بھی اغواء کیا جائے گا۔

پھر آپ لوگوں کیلئے کون آواز اٹھائے گا جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان جو پر امن صوبہ تھااسے آتش فشان میں تبدیل کر دیا ہے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا بے گناہ لوگوں کو پابند سلاسل کیا گیا جنرل مشرف کے دور حکومت کی مثالیں تاریخ میں نہیں ملیں گیں نواب اکبر بگٹی کے تابوت پر تالے تک لگائے گئے آج موجودہ حکومت اس کے کیسز پر تالے لگانے کی کوشش کر رہی ہے آج ڈکٹیٹر نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا اس کی اہمیت و حیثیت نہیں کیا آج ملک تباہی کے دہانے پہنچا ہوا ہے جہاں پر ملکی آئین کو پامال کیا گیا ایوان میں بیٹھے ہوئے آئین کی وفاداری کی قسم کھاتے ہیں کیا۔

اس آئین کی اہمیت نہیں حکومتی اراکین ہوں یا اپوزیشن مشرف نے آئین کو پامال کیا اسے تحفظ فراہم کرنے کوشش کی جا رہی ہے کس لئے کس کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے بلوچستان کی پسماندگی کو آپ ختم کریں گے یا اس سے بلوچستان میں احساس محرومی کو ختم کیا جائے گا۔

اس سے نفرتیں بڑھیں گی بلوچستان میں نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہیں جس کی کوئی انتہاء نہیں خواتین کی بے حرمتی کرنے‘ پابند سلاسل کرنے‘ جھوٹے مقدمات درج کرنے سے کیا پیغام دیا جا رہا ہے جس عام مجرم کے چہرے کو چھپا کر پیش کیا جاتا ہے مگر ہمارے ماؤں بہنوں کی تصویریں سوشل میڈیا اور پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا میں نشر کی جاتی ہیں وہ شخص جو آئین توڑتا ہے اسے گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے خاتون جسے جھوٹے مقدمات پر پکڑا جاتا ہے ان کے پیروں میں چپل تک نہیں ہے۔

ان کے سامنے لاکھوں روپے کے ہتھیار رکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بلوچ بزرگ‘ جوان اور اب بلوچوں کی خواتین بھی دہشت گرد ہیں ہم پر دہشت گردی کے ٹھپے لگائے جا رہے ہیں کیا پیغام دینا چاہا رہے ہمیں‘ کیا بلوچستان کو اس طرح ساتھ لے کر حکومت چلنا چاہتی ہے میں آج واضح کنا چاہتا ہے نہ سابقہ حکومتوں نے نہ آج کی حکومت بلوچستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹیاں بنائی گئیں میں نے بجٹ سیشن میں بھی کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے عمائدین اور سیاسی پارٹیوں کی کمیٹی بنائی جائے مگر جون میں کمیٹی بنی مگر اس کمیٹی کے شامل ناموں کا اعلان نہیں کیا گیا کہ وہ جا کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا دورہ کرے فیکٹ فائنڈ معلوم کی جائے کہ قصور کون ہے وہاں پر بسنے والے بلوچ ہیں کچھ ادارے ہیں حکومت ہے کون ذمہ دار ہے مگر بلوچستان کی کوئی حیثیت نہیں اسے ایک کالونی کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔

جب ووٹوں کی ضرورت ہے تو اختر مینگل‘ شازین بگٹی سمیت سب کو بلاتے ہیں جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے کراچی کے ٹرالر آ کر غیر قانونی طور پر ساحل پر ٹرالنگ کر رہے ہیں بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل بھی سامنے ہے کیمرے نصب کئے گئے مگر آج دن تک اس ایوان میں کسی نے اس پر لب کشائی نہیں کی باتھ رومز میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے جناب اسپیکر آپ کے تعلق بھی کوئٹہ سے ہے کیا۔

ہماری عزتیں اس حد تک ہیں کہ ہمارے بچیوں کے باتھ رومز میں کیمرے لگا دیئے جائیں جب اس پر احتجاج کیا گیا اور تو اور اب گزشتہ روز طلباء یونینز کی بحالی کیلئے احتجاج کیا گیا تو نوجوانوں پر غداری کے مقدمات قائم کئے گئے دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں طلباء تنظیمیں نہیں فواد چوہدری نے بھی یونینز کی بحالی کی بات کی سندھ اسمبلی نے طلباء یونینز کی بحالی کیلئے قرارداد پاس کی تو اس طلباء یونینز کو بحال کر کے نوجوانوں کو سیاست کیلئے راستہ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کئی بل آ رہے ہیں توسیع کے بھی بل لائے جا رہے ہیں مگر وزیر قانون کے ڈیسک پر پڑا ہوا لاپتہ افراد کا بل ایوان میں نہیں لایا جا رہا وزیر قانون کے کئی استعفے لئے اور وفاداری کے کئی بار حلف بھی لئے مگر بل پیش کیوں نہیں کیا جا رہا ہے اپنی عزت‘ غیرت‘ ننگ و ناموس‘ سرزمین کیلئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت پر ان کے ورثاء‘ چاہنے والے کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تو ہم ان نے انہی ایوانوں سے استعفیٰ دیا تھا۔

ہمارے لئے ایوان‘ حکومتی اتحاد اہمیت کا حامل نہیں جب اسمبلی سے استعفے دے سکتے ہیں تو حکومتی اتحاد سے بھی الگ ہو سکتے ہیں جس حکومت میں ہماری عزتیں محفوظ نہیں ہوں انہوں نے کہا کہ پروڈکیشن آرڈرجاری نہیں کئے جا رہے ہیں ہم یہاں قانون سازی کرنے آتے ہیں مگر بدقسمتی سے پروڈکیشن آرڈر تک جاری نہیں کر سکتے تو ایوان میں بیٹھنے کی ضرورت کیا ہے بلوچستان کو ساتھ لے کر چلا جائے۔

بلوچستان کو گن پوائنٹ پر نہ ایوب خان چلا سکا نہ مشرف چلا سکا نہ یحییٰ خان چلا سکا نہ ہی کوئی اور ڈکٹیٹر چلا سکتا ہے موجودہ حکومت نے بلوچستان کو توپ اور بندوق کی نظر کر دیا ہے ایسے نہیں چل سکیں گے کیا کسی کو بندوق کی زور پر مسلمان کیا جا سکتا ہے مذہب بدلا جا سکتا نہیں بندوق کی نوک پر کسی بلوچ کو پاکستانی نہیں بنایا جا سکتا جب تک بلوچستان کے لوگوں کو اس ملک کا برابر کے شہری تصور نہیں کیا جاتا۔

موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں نے بلوچستان کے لوگوں کو بندوق کے زور پر گھسیٹانا چاہا مگر کچھ نہ ہوا اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے ہمارا احتجاج ماؤں بہنوں کو واپس گھروں تک پہنچانے تک جاری رہے گا کمیٹیوں پر ہمیں اب کوئی یقین نہیں رہا ایک قلم کے زور پر آئین پرمال کرنے‘ ہزاروں لوگوں کو شہید کرنے‘ ملک کو تباہ کرنے والے کو بیرون ملک بھیجا جا سکتا ہے تو چار بے گناہ خواتین کو کیوں نہیں چھوڑا جاتا کل بھی ہمارے ساتھیوں نے دھرنا دیا تھا آج پھر ہمیں ساتھیوں کے ہمراہ ڈائس کے سامنے دھرنا دوں گا۔

سردار اخترمینگل نے حکومت پر واضح کیا کہ جب تک ہماری خواتین کو رہا نہیں کیا جاتا ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ اس موقع پر سردار اختر مینگل کے ہمراہ اپوزیشن جماعتوں نے سپیکر کی ڈائس کے سامنے احتجاجاً دھرنا دیا۔

بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔اس موقع پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے آواران میں خواتین کی گرفتاری کے حوالے سے رولنگ دی کہ وزیرداخلہ آج (جمعہ) کو قومی اسمبلی اجلاس میں آکر اس حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کریں اور قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں اس تمام واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جائے۔ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ فوری گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔