قدیم فارس کے لازوال جنگجو
جوشا جے مارک
ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا
ہخامنشی سلطنت ( 550-330ق م) کی سپاہ میں 10 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک خصوصی دستہ ہوا کرتا تھا جنہیں ’’لافانی‘‘ یا ’’لازوال‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بادشاہ کے ذاتی محافظوں میں شامل ہوتے اور فارس کے محاربوں میں پہلا حملہ کرنے والی پیادہ فوج شمار ہوتے۔ ان کا نام اس پالیسی کی بنیاد پر تھا جس کے مطابق ان کی تعداد ہمیشہ 10 ہزار رکھی جاتی تھی، اگر ان میں سے کوئی ایک مارا جاتا یا اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہ رہتا تو اس کی جگہ دوسرا لے لیتا۔ اس لیے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ انہیں مارا نہیں جاسکتا اور وہ لافانی و لازوال ہیں۔
ان کا ذکر سب سے پہلے ہیروڈوٹس نے اپنی کتاب ’’ہسٹریز‘‘ میں کیا ہے ہیراکلس، ایتھنائس اور دیگر لکھنے والوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ماخذ ہیروڈوٹس کی تحریر ہے۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کا ذکر کرنے والے زینوفون یا پولیائنس جیسے مصنفین نے بھی ہیروڈوٹس پر انحصار کیا کیونکہ انہوں نے ایسی معلومات فراہم کی ہیں جو ہیروڈوٹس کی ’’ہسٹریز‘‘ میں نہیں ملتیں۔ زینوفون نے فارس میں کورش اعظم (انتقال 401 ق م) کے اجرتی سپاہی کے طور پر بھی لڑائی میں حصہ لیا تھا لہٰذا اس نے اس ’’لازوال‘‘ دستے کی کہانیاں لازماً سنی ہوں گی۔ قدیم اور جدید مصنفین اغلاط اور مبالغے کے باعث ہیروڈوٹس کے ناقد ہیں، اسی بنیاد پر بعض جدید سکالرز نے کہہ ڈالا کہ فارس کی فوج میں 10 ہزار جنگجوؤں کا یہ دستہ کبھی تھا ہی نہیں، لیکن وہ زینوفون اور پولیائنس کے تذکرے کو نظرانداز کردیتے ہیں یا اس کی وضاحت نہیں کر پاتے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہیروڈوٹس نے قدیم فارسی کے دو الفاظ کو آپس میں گڈمڈ کر دیا ہے۔ اس دعوے کے مطابق دس ہزار ’’لازوال‘‘ پیادہ سپاہ کا ایک عام دستہ تھا اور ہیروڈوٹس نے قصے کہانیوں کی بنیاد پر اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ البتہ بعدازاں ساسانی سلطنت (224-651ء) میں ’’لازوال‘‘ خصوصی دستے کے شواہد کی روشنی میں اس دعوے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس سلطنت کے بانی اردشیر اول نے اپنی فوج ہخامنشیوں کی طرح بنائی اور ان میں 10 ہزار ’’لازوال‘‘ شامل کیے۔ ہخامنشیوں کے مقابلے ساسانی ’’لازوالوں‘‘ میں اسلحے اور سامان کی بہتری کے علاوہ فرق یہ تھا کہ ساسانی سوار (جنہیں جاوداں کہا جاتا تھا) ہوتے تھے جبکہ ہخامنشی پیادہ۔ دونوں سلطنتوں میں خصوصی دستے میں ان جنگجوؤں کو چنا جاتا تھا جو عسکری ہنر اور کردار میں اعلیٰ درجے پر ہوں۔ قدیم دنیا کی ان دونوں عظیم سلطنتوں میں یہ سب سے خوفناک سپاہ ہوا کرتی تھیں۔
ابتدا اور تربیت ’’لازوال‘‘ سب سے پہلے کورش اعظم (حکمرانی 550-530 ق م) کے دور میں تشکیل پائے۔ وہ ہخامنشی سلطنت کا بانی تھا۔ کورش اعظم نے علاقے پر راج کرنے والے میدیوں (Medes ) کو شکست دی، اور پھر اپنے علاقوں کی توسیع کے لیے ایک کے بعد دوسری مہم سرانجام دی۔ اس نے 546 ق م میں لیدیا، 540 ق م میں عیلام اور 539 ق م میں بابل فتح کیے۔ اس کے بعد اس نے میدی اور عیلام کے جنگجوؤں کو اپنی فوج میں بھرتی کر لیا اور اکثر دونوں قوموں سے کماندار متعین کرتا رہا۔
زینوفون ’’سائروپیڈیا‘‘ (کورش کی زندگی اور حکمرانی پر ایک نیم فکشن) میں دعویٰ کرتا ہے کہ کورش نے فوج کے بہترین جنگجوؤں کو اپنے محل کی حفاظت کے لیے چنا اور پھر ان میں سے سب سے اعلیٰ پر مشتمل ایک خصوصی دستہ بنایا۔ یہ فارسی اور میدی تھے اور انہوں نے لیدیا، عیلام اور بابل میں کورش کی کئی عسکری مہمات میں حصہ لیا تھا۔ یہ بادشاہ کے ذاتی محافظ بھی تھے اور جنگوں میں پہلا حملہ کرنے والے بھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کورش کے بیٹے کمبوجیہ دوم (دورحکمرانی 530-522 ق م) کی قیادت میں 525 ق م میں مصر کے خلاف ہونے والی عسکری مہم میں یہ دستہ شامل تھا۔ کورش نے ایک مستقل فوج (سپاڈا) بنائی تھی، لیکن ضرورت پڑنے پر بھرتی کی فوج، جسے کارا کہا جاتا تھا، کو بھی برقرار رکھا تھا۔ کارا فارس کی فوج کا لازمی جزو رہے۔ کسی سٹراپے (صوبے) کے سٹریپ ( گورنر) سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ فوجی خدمات کے لیے جبراً بھرتی کر کے دے گا نیز یا تو جنگوں میں خود قیادت کرے گا یا اس مقصد کے لیے قابل بھروسہ جرنیل فراہم کرے گا۔ اناطولیہ سے لے کر مصر اور وسط ایشیا تک، جبری بھرتیاں سلطنت کے تمام حصوں سے کی جاتی تھیں، لیکن سپاڈا کا مرکز فارس اور میدی تھے، اور ’’لازوال‘‘ انہیں سے چنے جاتے تھے۔ فوجی خدمات کا آغاز 20 برس کی عمر میں ہو جاتا تھا اور پیشہ ور فوجیوں کو 50 برس کی عمر میں ریٹائر ہونے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس کے بعد انہیں بطور انعام اراضی دی جاتی تھی اور خدمات کے صلے میں پنشن ملتی تھی۔ یونیفارم اور ہتھیار ہیروڈوٹس اپنی کتاب کی ایک جلد میں ہخامنشی فوج کے فارسی دستوں کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
شوش اور پاسارگاد جیسے شہروں پر فارس کے جنگجوؤں کی تصاویر کے بارے میں اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’لازوال‘‘ دستے کی ہیں لیکن ان کی جو تفصیلات درج ہیں ان سے زیادہ امکان یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عام فوج کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ ان میں چند ’’لازوال‘‘ بھی شامل ہیں۔ ہیروڈوٹس کے مطابق ان کے سر پرٹوپی نما تاج ہوتا، ان کے جسم پر رنگ برنگے کپڑے ہوتے اور لوہے کی آستیں بازوؤں پر چڑھی ہوتیں جو مچھلی کے چھلکوں جیسی لگتی تھیں۔ یہ پاجامہ پہنتے تھے۔ عام ڈھال کے بجائے ان کے پاس ٹوکریاں سی ہوتیں۔ ان کے اندر ترکش لٹک رہے ہوتے۔ چھوٹے نیزے، بڑے کمان، بید کے تیر اور خنجر ان کی کمربند کے ساتھ لٹک رہے ہوتے۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے، ساسانی سلطنت میں ’’لازوال‘‘ سوار ہوتے تھے۔ ان کے لباس اور ہتھیاروں کے بارے میں رومی تاریخ دان امیانوس مارسلینوس نے خوب وضاحت کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمام کمپنیاں لوہے میں ملبوس ہوتیں اور جسم کے تمام حصے موٹی پلیٹوں سے ڈھکی ہوتے، جو اعضا اور جوڑوں کی مناسب سے ہوتیں، ہیلمٹ ماہرانہ انداز میں سر پر رکھی ہوتی اور پورا جسم دھات سے ڈھکا ہوتا۔ ان کے ہتھیار تلوار، جنگی کلہاڑا، گرز، نیزہ، برچھی اور دیگر ہوتے۔ ہخامنشی عہد کی لڑائیاں ’’لازوال‘‘ دستے دارا اول (حکمرانی 522-486 ق م) کے دور تک موجود تھے اور غالب امکان یہی ہے کہ 490 ق م میں جنگ میراتھن میں انہوں نے حصہ لیا۔ تب دارا اول نے یونان پر حملہ کیا تھا مگر شکست کھا گیا تھا۔
خصوصی دستوں کی معروف شمولیت جنگ تھرماپیلی میں 480 ق م میں خشایار شا اول کے دور میں ہوئی۔ 10 برس قبل میراتھن میں فارس کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اس نے یونان پر بہت بڑا حملہ کیا، لیکن سپارٹا کے جرنیل لیونیڈاس نے درہ تھرماپیلی کے مقام پر اس کی شدید مزاحمت کی۔ اسے دشمن کی زیادہ طاقت کا اندازہ تھا، اس لیے اس نے زیادہ تر فوج کو پیچھے بھیج دیا اور 300 سپارٹا والوں کے ساتھ آگے جاکر اور اپنی قیادت میں مقابلہ کیا۔ خشا یار نے پہلے میدیوں اور شوشیوں کو سپارٹا والوں کے خلاف بھیجا لیکن انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پھر اس نے ’’لازوال‘‘ دستوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ہیروڈوٹس بیان کرتا ہے ’’کچھ دیر بعد میدی سپاہ پسپا ہو گئی، وہ بری طرح زخمی تھی، اور ان کی جگہ ’’لازوال‘‘ نے لے لی، خشایار انہیں اسی نام سے پکارتا تھا… خیال تھا کہ وہ جلد ہی اپنا کام ختم کر لیں گے، لیکن جب انہوں نے یونانیوں سے لڑائی شروع کی تو وہ میدیوں سے زیادہ کامیاب نہ ہوپائے۔ نتیجہ وہی نکالا، کیونکہ عوامل وہی تھے: وہ ایک محدود اور چھوٹے علاقے میں لڑ رہے تھے، وہ نیزے استعمال کر رہے تھے جو یونانیوں کے مقابلے میں چھوٹے تھے، وہ تعداد میں اپنی برتری کا فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔‘‘ تھرماپیلی اور دیگر لڑائیوں میں یونانیوں کے خلاف ان خصوصی دستوں کی مرکزی کمزوری ان کے ہتھیار اور جنگی لباس بنے۔ یونانیوں سے قبل جنگوں میں مخالفین کے پاس ان جیسے ہتھیار تھے۔ یونانیوں کی ڈھالیں اور جنگی لباس زیادہ پائیدار اور مضبوط تھے، ان کے ہتھیار بھی فارسیوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر تھے، وہ فارس کی فوج کو ایسی جگہ لے آتے جہاں وہ خسارے میں رہتے۔
دارا سوم کی سکندراعظم کے ساتھ ہونے والی جنگ اربیلا (331 ق م) تک ہخامنشی سلطنت میں یہ دستہ موجود رہا۔ لیکن سکندراعظم کی اعلیٰ فوجی حکمت علمی اور بہتر ہتھیاروں نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ ان دستوں کو سکندراعظم نے برقرار رکھا (اور خود کو دارا سوم کا جانشین ظاہر کیا، اسی لیے اسے ہخامنشی سلطنت کا آخری بادشاہ بھی کہا جاتا ہے)۔ سکندر کی موت کے بعد اس کی سلطنت چار جرنیلوں میں تقسیم ہو گئی۔ نیکوٹار کے سکوکس اول کے حصے میں وسطی ایشیا اور میسوپوٹیمیا آیا، اس نے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی اور سکندراعظم کی پالیسیوں کو جاری رکھا لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے ’’لازوال‘‘ دستے کا کیا کیا۔ اس کے پارتھی سلطنت وجود میں آئی جس نے غیرمرکزی طرزحکومت اختیار کیا اور جاگیرداری رائج کی۔ اس نے کارا کا نظام رائج کیا۔ پارتھیوں کو مرکوز طرزحکمرانی اور مستقل فوج کی کمزوریوں کا اندازہ تھا کیونکہ انہیں متحرک کرنے اور لے جانے کے لیے زیادہ وقت اور توانائی درکار ہوتی۔ انہوں نے تنازعوں کو صوبوں کی سطح پر نپٹنے کی راہ نکالی اور اس طرح ’’لازوال‘‘ کی ضرورت باقی نہ رہی۔ پارتھیوں کی سوار فوج اردشیر اول کے لیے تب ایک مثال بن گئی جب اس نے ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس نے ساسانی ’’لازوال‘‘ بھی تشکیل دیے۔ ساسانی فوج اتنی کامیاب تھی کہ اس نے رومی فوج کو کئی بار شکست دی۔ انہوں نے اپنے علاقے کا کامیابی سے دفاع کیا اور تقریباً 400 برسوں تک استحکام قائم رکھا۔
خسرو اول کے دور میں فوج اور ’’لازوالوں‘‘ کا عروج تھا، لیکن وہ عرب مسلمانوں کی زیادہ متحرک اور بڑی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے۔ 651ء میں عرب مسلمانوں نے ساسانیوں کو تیزرفتارہ پیادہ تیر اندازوں اور اونٹوں پر سوار فوج کی مدد سے شکست سے دوچار کیا، کیونکہ وہ سنگلاخ اور ریتلے علاقوں میں تیزی سے حرکت کر سکتے تھے۔ مسلمانوں کی فتح کے بعد نہ ساسانی سلطنت رہی، نہ فارس کی فوج اور نہ ’’لازوال‘‘۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔