فرید مینگل کا چیئرمین نذیر بلوچ کے نام خط – گھور مینگل

270

فرید مینگل کا چیئرمین نذیر بلوچ کے نام خط

تحریر: گھور مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا بھرکے جبر، مظلومیت، استحصال کے شکار، علمی، فکری، نظریاتی و قومیت کی بنییاد پر شہادت نوش کرنے والےیا اس جہد میں فیڈریشن کےاندھیر زندانوں میں اذیت سہنے والے ان تمام مجاہد و جہد کاروں کومیرا سرخ سلام ۔

کافی مدت بیت جانے کےبعد پہلی دفعہ کسی غیر تنظیمی دوست کے تحریری طور پر بی ایس او کے قائد چیئرمین واجہ نذیربلوچ کے نام کھلا خط پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ دلی تمنا و قلبی خواہش تھی کہ ایسا کوئی موضوع ملے جسکا مدار و متن بلوچ قومی سیاست، طلبہ (بی ایس او)، عالمی ، برصغیر و خطے میں پرپا ھونےوالے قلاباز کیفیت کے حامل حالات موضوع ھوں لیکن سنگت فرید کی لکھی گئی ایک چھوٹی سی کاوش جس میں عالمی حالات، خطہ و بلوچ قومی سیاست کا ذکرنہ سہی لیکن بلوچ طلبہ سیاست کی مادر و بلوچستان کی بلوچ نمائندہ طلبہ تنظیم بی ایس اور اسکے سروک واجہ چیئرمین نذیر بلوچ و ماس پارٹی کا تذکرہ باعث مسرت ہے۔

بلوچ طلبہ مادر تنظیم بی ایس اوکے قائد چیئرمین واجہ نذیر بلوچ کی قیادت میں عالمی، ریاستی ، معاشی،معاشرتی ، ملکی ، و دیگرجابر و استحصالی طاقتوں ( جاگیردار، قبائلیت ، سامراجی وبلوچ ماؤں کے کوکھ سے پیدا بلوچیت کے خول میں بر سر پیکار پیرو بزرگ ،طلبہ ، نوجوان و بی ایس او تقسیمی سازشیوں کے سازش کا شکار ہوکر میدان میں بی ایس اوکے مشعل نما نقش سرخ علم کو تھامےعلم ، جدوجہد، اتحاد آخری تک کے نعرے کے ساتھ مظلومیت کی صدا بلند کرتے تلار کی مانند جدوجہد میں مصروف عمل ھے ان تمام مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے بی ایس او شہید حمید سے لیکر آج دن تک ہزاروں نظریاتی سنگتوں کی بے تحاشہ قربانی دینے والی پہلی اور بے نظیر مستقل جہد کی علامت ہے اگرچہ میری کم علمی آڑے نہ آۓ۔

محترم دوست!
چیئرمین واجہ نذیربلوچ کی بی ایس او کے علم تلے طلبہ سیاست پر نظر ڈالناضروری سمجھوں گا، اسکی وجہ اور ضرورت موجودہ و ماضی کے سنگین و نامساعد حالات کا علم وطلبہ سیاست کا حصہ ھونا اورپھر ایک چيئرمین کی حیثیت سے انکا سدباب قومی ذمہ داری نبھانے کی عملی کوشش کوبیان کرنا حقیقت کو سمجھنے کے لۓ ضروری ھے۔ یونٹ ، زون ، رکن مرکزی کمیٹی ،مرکزی انفارمیشن سیکریٹری اور چیئرمین کے عہدے پر فائز ھونا انکی نظریاتی وابستگی کی ایک تصویر ھے اپنے ابتک کے ٹینیور میں بی ایس او کی تاریخ میں سب سے زیادہ آگہی و علمی بنیاد پر سیمینارز کا انعقاد ، کتب خانہ مہم (وڈھ، سوراب ،تربت ،حب چوکی کی قیام کی کاوشیں علمی جہد کا بہترین حصہ ھیں۔

29نومبر پاکستان بھر میں طلبہ نے پروگریسو اسٹوڈنٹس متحدہ کے نام سے ملک گیراحتجاجی تحریک کا آغاز کیا، شرکاء کافی پرجوش تھے اور سب سے نمایاں مطالبہ طلبہ یونین کی بحالی تھا متحدہ پروگریسو اسٹوڈنٹس اگر پاکستان بہارکا روپ دھارناچاہتی ھے تو اسے ملک کے تمام پسے ھوۓ طبقات اور مظلوم انسان و قومیتوں کو ایک نظرسے دیکھناھوگا اور تمام چیزوں سے بالاتر ھوکر میدان میں اترنا ھوگا پھربازوۓ قاتل میں اتنا زور نھیں رھے گا۔

1984 میں طلبہ سیاست کو ملکی قانونی شکنجے میں جکڑ کر تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی تاحال بہت بڑی تحریک کامنتظرھے ۔

26 نومبر 1967 بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی کراچی میں بنیاد ڈالی گئی مجموعی طورپر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈیریشن ایک فعال جماعت تھی اور وہ طلباء نوجوانوں اور روشن خیال طبقے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رھی تھی۔

بی ایس او نے ناانصافی ظلم جبر و بر بریت کا شکار قوم کی نمائندہ طلبہ تنظیم کی حامل قوم پرستانہ سیاست روشن خیال و ترقی پسند تنظیم کی حیثیت سے تمام دنیا کی مظلوم محکوم اقوام کی استحصالی پابندیوں کے خلاف قوموں کی مکمل حمایت کی ھے مظلوم کے ساتھ یکجہتی اور استعماری قوتوں کو طاقت کے بل بوتے پرکمزور پر ظلم کو بری نگاہ سے دیکھتاھے۔

عزیز سنگت!
قوم کی نمائندہ طلبہ تنظیم کی حیثیت سے بلوچ قوم پر بربریت کا آغاز ، عام بلوچ طلبہ و سیاسی لیڈروں کی جبری گمشدگی اغوانماگرفتاریوں، مسخ شدہ لاشوں، جغرافیائی تبدیلی، قدرتی وسائل کی لوٹ مار، بلوچ سرزمین کو دنیا جہاں کی مہاجریرن کی آماج گاہ بلوچ کش پالیسوں کا آغاز جیسے نا انصافی و ظلم کا سامناھے تو دیگر قومیتوں کے پروگریسو اسٹوڈنٹس کی خاموشی ظلم و جبر کو تقویت بخشنے کی مترادف ھے۔ بی ایس او ان پروگریسو تنظیموں کی جبراً خاموشی کي منطقی وجوہات کی بنیاد پر 29نومبر کی طے شدہ پروگرام طلبہ یکجہتی مارچ میں احتجاجی طورپر شرکت نہیں کرنا چاہتی تھی حالانکہ بی ایس او خود ان پابندیوں کاسب سے زیادہ شکارتھی اور آزادی کی نعمت سے محروم نھیں ھوناچاہتی تھی طلبہ یکجہتی مارچ سے ایک دن پہلے بلوچستان قومی اکائیوں کی نمائندہ طلبہ تنظیموں سے اتحاد کا حصہ ھونے اور طلباء یونینز کی بحالی کی جدوجہد میں پریس کانفرنس کے زریعے باقاعدہ شامل ھوگئی ۔

یکجہتی مارچ کے دوران پھر سے عدم تشدد کے حامی بلوچ طلباء (بی ایس او ) کو تقسیم درتقسیم متنازعہ کرنے کی کوشش میں سازشی عناصر تشدد کے متلاشی نام نہاد گروہ مارچ میں شامل ھوگئی اور بی ایس او کا عظیم نام استعمال کر کے کارکنان پر دھاوا بول دیا جسمیں بی ایس او کے دوساتھی شدید زخمی ھوگے۔

چند افراد پر مشتمل گروپ کی بنیاد اور حقیقت ۔۔۔۔!
محترم ظریف رند نامی شخص اس گروہ کی سربراہ ہیں، بی ایس او پجار میں تنظیمی نظم وضبط، گروہ بندی و تقسیم انتشار کی بنیاد پر نکالاگیا تھا، ڈاکٹر مالک کی حکومت میں گڈانی پاور پراجیکٹ و دیگر ایسے معاملات پر سینٹرل کمیٹی سےپانچ ساتھیوں سمیت فارغ کۓ گۓ تھے، چند افراد کیساتھ کونسل سیشن اور سوشل میڈیا فسادی مہم کا سہارالیکر مقدس تنظیم کو بدنام کرنے کی کوشش میں ھے۔ سیاسی روزگار کیلۓ طلبہ سیاست میں ھلڑبازی کو بطور مہرہ استعمال کرکے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز بلوچ طلبہ ایکشن کمیٹی بی ایس او پجار اور پھر یکجہتی مارچ میں بی ایس او کا عظیم نام استعمال کر کے سستی شہرت انتشار نفرت اور تشدد پر عمل پیراہے۔

بلوچ طلبہ بی ایس او کے سرخ علم اور چیئرمین واجہ نذیربلوچ کی قیادت میں عدم تشدد، رواداری، علمی و ادبی، شعوری سیاست کے اصولوں پر کار بند ھیں اور کسی کوسازشی بنیادوں ہرگز بی ایس او کا مقدس نام استعمال کرنے کی اجازت نھیں دینگے کیوں نہ ھمیں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنا پڑے ہر قیمت پر دفاع کرینگے۔

سنگت فرید جان!
بلوچستان کی مجموعی و معروضی حالات کا تقاضہ ہیکہ نسلی بنیاد باالخصوص بلوچ قوم ودیگر مظلوم کیلۓ حقیقی جدوجہد کرنے والے ہر اس شخص کی جہد کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاۓ۔ جہد کا ر کی سیاسی و جمہوري لائن کو عوام اور ماسسز کی طرف سے ملکی آئين و قوم کی اجتماعی مفادات کا محافظ کی حیثیت سے بر سر پیکارھو قابل قدر ھے۔

بی ایس او روز اول سے ظالم و جابر سردار نواب، قبائلی نظام جاگیردار و استعماری قوتوں کی بھرپور مخالف رھی ھے اور آخری حدتک نفرت کرتی ھے ۔

لیکن سنگت!
اگر کوئی نواب سردار میر ومعتبر کوئی زی شعور شخص بلوچستان کے فرزند کی حیثیت سے بلوچ قوم حق وحاکمیت ،قدرتی وسائل پردسترس تشخص، جغرافیہ کی محافظ کی حیثیت سے جابر کو للکار اور مظلومیتوں کی آواز بنے جسکی جدوجہد قومپرستی یا قوم دوستی کے دائرے میں گھومتاھو تو بلاجھجھک ھمیں ہر فورم پراسکی مدد و طاقت بننے کی ضرورت ھے کیوں نہ وہ نواب سردار سیاستدان قومی مجاہد طالب علم سوشل ورکر وقومی فرزند ھو حمایت کرنے کی ضرورت ھے ۔

جناب محترم!
اکثر گروہی مفادات کے حامل دوست بی ایس اوکو قوم پرست پارٹی کاطعنہ دیتے ھیں بغل بچہ یا اسٹوڈنٹ ونگ جیسے ہزاروں القابات سے اپنی و دلی تسکین کے لۓ نوازتےھیں۔
۔
بی این پی کیساتھ بی ایس اوکی سیاسی اتحاد وقربت کی وجہ حقیقی قوم دوست سیاست قومی اجتماعی مفادات کی جدوجہد ھے واضح کروں یہ ملکی حالات و طلبہ سیاست کی پابندی کی وجہ سے وقتی ضرورت ھے، آئین میں ترقی پسند روشن خیال قوتوں کے ساتھ سیاسی وابستگی یا اتحاد کیاجاسکتاھے لیکن اس جیسے اتحاد ہمیشہ کیلۓ نھیں ھوتے کسی وقت کنارہ کش کیاجاسکتاھے۔ بی ایس او واجہ نذیربلوچ کی قیادت میں طلبہ کی سیاسی علمی فکری و شعور تربیت کے اصول پر جہد مستقل میں مصروف ھے ۔۔
ظریف قیادت کی اغواء اور
پھر ان ان کی دھڑے کی خاموشی تاریخی سیاسی وابستگی کی بہترین مثال ہے
۔ میں دوش دونگا بی ایس او نذیر بلوچ اور قیادت کو جن کی
کاوشوں کی بدولت ظریف اور ساتھیوں کی رہائی عمل میں آئی۔

بقول سنگت فرید بلوچ ” وہ استعماری لشکر بی ایس او کو جب چاہیں ریوڑ کی طرح ہانک لیں، ہمارے لبوں پر لفظ ”انکار“ کبھی نمودار نہیں ہوتا ” بی ایس او کی طویل تاریخ یا ماضی میں جانے کے بجاۓ کوئٹہ میں پارٹی
(جسکا ھمیں طعنہ دیاجاتاھے) جلسے میں غیر سیاسی وتقسیم بلوچ قوم کے موقع پر شدید احتجاج، غیر قومی اعمل کی نفی اپنا ایک بہترین نمونہ ھے بی ایس او کے مرکزی سروک کی حیثیت سے چیئرمین نذیر بلوچ کی تقریر بی ایس او کی اپنی نظریاتی وابستگی و حقیقی طلبہ سیاست کی اصولی و جہ کا ھوناھے۔

بی ایس او آئین کی رو سے تمام ترقی پسند روشن خیال وقومیتوں کی حقوق کی حقیقی جدوجہد کرنے والے تنظیوں و دیگر قوتوں کیساتھ بات چیت علمی بحث و مباحثہ مکالمہ کی اجازت دیتاھے، تمام نظریاتی سنگت آئین کے پابند ھیں۔

لکھاری سنگت!
ضروت اس امر کی ہیکہ لکھاری، ادیب، دانشور حضرات اپنے تقریروں، تحریروں سے بلوچ طلبہ سیاست کی تقسیم درتقسیم گروہوں کے سیاسی مفادات ودیگر تخریب کاروں کی بیخ کنی کرنی ھوگی، میری استدعاھیکہ زمہ دار دوست حقیقت کی عینک کا استعمال دوراندیشی حقیقی و مستقل جدوجہد کے حامی سنگتوں رہنمائی و طاقت بنیں نہ کہ تقسیمی عمل کا حصہ یا پشت پر کھڑے ھو قومی جرم کے مرتکب ٹھریں ۔

شکریہ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔