کوئٹہ طلبہ مارچ اور بی ایس او کی نمائندگی – اسد عطا حسنی

180

کوئٹہ طلبہ مارچ اور بی ایس او کی نمائندگی

تحریر :  اسد عطا حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی میں بی ایس او کی 52 ویں یوم تاسیس کے موقع پر تنظیم کی جانب سے منعقدہ پروگرام جو کہ آخری لمحہ انڈور سے اوپن کردیا گیا- وجہ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ گورنر صاحب حکم صادر فرما چکے ہیں کہ جامعہ میں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہ دی جائے بعد میں یہ فیصلہ ان کے اپنے گلے پڑ گیا کیونکہ اوپن اسپیس میں منعقد پروگرام باقاعدہ ایک عوامی جلسے کی شکل اختیار کرگیا، جس میں بی ایس او کے سابق کیڈرز بھی اسٹیج پہ براجمان تھے، جن میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، چئیرمین واحد، مہیم بلوچ، بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد نواز سمیت کئی رہنما شریک تھے۔

میں بذات خود، بلوچ کونسل کے سابق چئیرمین میر شہزاد رودینی کے ساتھ اس پروگرام میں شریک تھا۔ ہماری شرکت کا مقصد پروگرام کا ذاتی طور پر مشاہدہ کرنا تھا ایک عرصے بعد بلوچ طلبہ کا اتنا بڑا سیاسی مجمع دیکھ کر ہزار کمی کوتاہیوں کمزوریوں کے باوجود ایک امید کی کرن پیدا ہوگئی تھی کہ بلوچستان میں طلبہ سیاست پھر سے پروان چڑھ چکی ہے، اس پروگرام میں حیرت انگیز طور پر مکران سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی بڑی تعداد میں سیکورٹی سنھبالنے اور شرکت کو دیکھ کر دلی اطمینان ہوا کہ سامراج کا براہوئی، بلوچ ، سراوان، مکران، جھالاوان کے نام پہ تقسیم کی پالیسی ضعیف ہوچکی ہے۔ اس پروگرام میں اسٹیج پہ بیٹھے شخصیات کی تقاریر کے بجائے میں پروگرام میں شریک لوگوں کو observe کرنے میں مصروف تھا۔ بلوچ طلبہ میں جوش خروش دیکھ کر یقین مانیں دلی خوشی ہورہی تھی کہ قوم دوستی و قومپرستانہ جراثیم بلوچ طلبہ میں پہلے سے زیادہ اور موثر انداز میں موجود ہیں، (وہ الگ بحث ہے کہ قومپرستانہ افکار کو کاونٹر کرنے کےلئے ایک سرخ ٹولے کو سرگرم کرنے کی کوشش لاہور سے جاری ہے)

اس پروگرام میں تقریباً بی ایس او کے تمام دھڑوں کے علاوہ پشتون طلبہ تنظیمیں بھی شریک تھیں، بلوچ طلبہ کی یکجہتی اپنی جگہ بلوچستان یونیورسٹی کی تمام طلبہ تنظیموں کی شرکت سے یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ جامعہ کے مسائل پہ تمام طلبہ تنظیمیں ایک پیج پر ہیں۔

بحیثیت طالب علم ہم پر امید ہوگئے کہ چند دن بعد طلبہ کے جامع مسائل پر ملک گیر احتجاج میں کوئٹہ کا احتجاج سب سے موثر اور تاریخی ہوگا کیونکہ بی ایس او کے جن دوستوں کو میں جانتا ہوں وہ تو طلبہ الائنس کے ساتھ مل کر اس پروگرام میں بھر پور شرکت کے خواہش مند تھے۔

مگر 29 نومبر کو کوئٹہ میں منعقد ہونے والے مارچ میں بدقسمتی سے ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، مارچ منزل مقصود پر پہنچنے کے بجائے واپس میٹرو پولیٹن کی اس سبزہ زار پر پھیکی انداز میں اختتام پذیر ہوئی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔

بقول عابد میر صاحب کے کوئٹہ میں ہونے والا مارچ ناکام ہوگیا۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں یقیناً یہ تمام طلبہ تنظیموں کی ناکامی ہے، بلوچستان کے طلبہ کی ناکامی ہے مگر یہ ناکام کیوں ہوا ؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان کا تدارک کون کرے گا؟ کیا آپسی چپقلش ذاتی پسند ناپسند آڑے نہیں آئی ؟ کیا ڈیڑھ انچ کی مسجدوں نے ہمیشہ کی طرح اس مارچ کو نقصان نہیں پہنچایا ؟

مارچ کی ناکامی بلوچستان کی حقیقی طلبہ تنظیموں کو نظر انداز کرنے سے یقینی تھی کیونکہ یہ طلبہ یکجہتی مارچ تھا، مختلف اداروں کے طالب علم شریک تھے وہ لفظ طلبہ دیکھ کر سن کر آئے تھے کیونکہ بلوچستان میں نہ اسٹودنٹس ایکشن کمیٹی وجود رکھتی ہے اور نہ ہی ظریف گروپ کی اثررسوخ پائی جاتی ہے، تعلیمی اداروں میں، مارچ کی کامیابی تب یقینی ہوتی جب نیتوں میں کھوٹ نہیں ہوتا، مقاصد صرف طلبہ کی یکجہتی و طلبہ مفاد سے جڑے ہوتے، مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے طلبہ تنظیموں کو تشدد پر اکسانا ہی مارچ کے منتظمین کا کہیں مقصد تو نہیں تھا؟ جس میں فوکل پرسن کردار مشکوک ہے۔

مارچ کی ناکامی کا سدباب عابد میر صاحب کی تحریر سے ہی اخذ کی جاسکتی ہے، اگر یہ طلبہ یکجہتی مارچ تھا تو بلوچستان کی صف اول کی طلبہ تنظیمیں کونسی ہیں؟ کیا بی ایس او، بی ایس او پجار، پی ایس ایف اور بلوچ طلبہ ایکشن کمیٹی کی اہمیت سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ اگر جواب نا ہے تو مخصوص ٹولے کو بلوچ طلبہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کرنا چے معنی دارد؟ طلبہ تنظیموں کو اعتراض کیوں نہ ہو جب بلوچستان کے طلبہ کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کو مارچ میں مکمل طور پر نظر انداز کرکے غیر معروف اور نومولود ٹولوں کو فوقیت دی گئی، بقول عابد میر صاحب کہ “ان تنظیموں کو یہ آفر کی گئی کہ آجائیں آپ لوگوں کو خطاب کا موقع دیں گے” طلبہ مارچ میں طلبہ کی سب سے بڑی تنظیموں کی ساتھ یہ بھونڈا مزاق کہیں پری پلان تو نہیں تھا ؟ ایک مخصوص ٹولے کےلئے اسپیس پیدا کرنا تو نہیں؟

ایک ایسی حادثاتی تنظیم جس کو وجود میں آئے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا ہے، اس مختصر مدت کے دوران مذکورہ تنظیم خوب متنازع رہی، کبھی بلوچ کونسلز کی ساتھ تناو تو کبھی بلوچ طلبہ ایکشن کمیٹی کیخلاف ہرزہ سرائی، بی ایس او پجار کے ساتھ الجھنا ہو یا حالیہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کے بعد سے بی ایس او کے ساتھ پنجہ آزمائی، مذکورہ گروہ جن کی اکثریت کو مختلف طلبہ تنظیموں سے مشکوک سرگرمیوں کی پاداش میں نکالا گیا تھا، ان کی ہٹ دھرمی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بی ایس او کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ مذکورہ گروہ اپنے نام واضح کرے کیونکہ جو نام انہوں نے اپنے ٹولے کو دی ہے وہ ایک مقدس تنظیم کا نام ہے آپ کیسے کسی اور تنظیم کا نام استعمال کرسکتے ہیں، بی ایس او کا ایک ہی اور سادہ سے مطالبہ ہے کہ آپ اپنی تنظیم کا نام واضح کریں، آگے رند لکھ دیں، میر بلیدی، ظریف کچھ بھی لکھ دیں اس سے بی ایس او کو کوئی سروکار ،غرض نہیں کیونکہ بی ایس او کا نام استعمال کرنے سے حقیقی بی ایس او کو تنظیمی اور دیگر معاملات میں دشواری کا سامنا ہے، کیونکہ گذشتہ روز مختلف سرکاری دفاتر اور عوامی مقامات سے بی ایس او نام کا استعمال کرکے چندہ بٹورا گیا۔ اکثر و بیشتر نے حقیقی بی ایس او سمجھ کر تعاون کیا، بی ایس او کا نام ایسے گروہ کی جانب سے استعمال ہورہا ہے جن کا کوئی وجود نہیں، نہ کوئی آئین نہ تنظیمی ڈھانچہ اور نہ ہی کوئی دفتر، چلتے پھرتے دکان کی طرح بی ایس او کا نام استعمال کرنا یقیناً حقیقی بی ایس او سمیت کسی بلوچ طالب علم کو برداشت نہیں ہوگا۔

اب بھی وقت ہے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنما، لکھاری ،دانشور اہل قلم مذکورہ گروہ کو یہ بات سمجھائیں کہ ان کی ہٹ دھرمی بلوچ طلبہ میں خونی تصادم کی پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔