بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یونیورسٹیاں ایک وضع شدہ قوانین کے تحت چلائی جاتی ہے جہاں تقرریوں کیلئے قوانین واضع کئے گئے ہیں یہ کوئی بکرا پیڑی تو نہیں کہ ایک دانت چیک کرکے کام چلایا جائے۔ وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے سرچ کمیٹی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس کے بغیر تعیناتی نہیں کی جاسکتی ہے کمیٹی بہتر سے بہترین کی تلاش کرتی ہے۔
سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کیلئے 15 امیدواروں میں صرف 3 کو شاٹ لسٹ کس طرح کیا گیا۔ ہوسکتا ہے مزید قابل لوگوں نظرانداز کیا گیا ہو،جب تک عدالت کو مطمئن نہیں کیا جاتا کہ وائس چانسلر کی تقرری میں قانونی لوازمات مکمل کیے گئے ہیں اس وقت تک وائس چانسلر کی تقرری کالعدم رہے گی۔
یہ حکم جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے ڈاکٹر شگفتہ برخلاف چانسلر سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کی آئینی درخواست نمبر 1248/2019 میں سماعت کے دوران دیا۔
درخواست گزار کے وکیل معصوم خان کاکڑ نے عدالت کو بتایا کہ نئی وائس چانسلر سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی ڈاکٹر نورین کی تعیناتی خلاف قانون کی گئی ہے، یہ اقدام بلوچستان میں تعلیمی نظام کو نقصان پہنچانے کی وجہ بن سکتا ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس جمال مندوخیل نے گورنر سکریٹریٹ کے جونیئر پولیٹکل سیکرٹری مالک اچکزئی سے پوچھا کہ آپ نے جو کاغذات عدالت کے سامنے جمع کرائیں وہ 20 تاریخ کے ہیں، جبکہ وائس چانسلر کی تعیناتی پہلے ہوئی ہے،مالک اچکزئی نے یہ بات تسلیم کی کہ تعیناتی سے قبل سینٹ کا اجلاس نہیں ہوا،کل 20 تاریخ کو اجلاس بلایا تھا اور دستخط کروائے گئے ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو مخاطب کیا کہ آپ بتا دیں، ان کاغذی معاملات سے کب تک اس صوبے کو چلاتے رہیں گے؟ عملی اقدامات کب ہونگے؟ سینٹ کی میٹنگ کب ہوئی ہے؟ کیا کوئی کمیٹی بنائی ہے۔ قانون سے ہٹ کر بات نہ کریں، قانون کی بات کریں یہ کوئی قدرتی آفت تو نہیں کہ جس کے لئے آپ نے کابینہ کا اجلاس بلایا اور پیسے لے لیے، یہ تو وائس چانسلر کی تعیناتی تھی، جس سے آپ لوگ پہلے باخبر تھے، کہ کب پوسٹ خالی ہونی ہے۔ ایک سال پہلے آپ کو اس بات کا تعین کرنا چاہیے کہ وائس چانسلر کی ریٹائرمنٹ کا وقت نزدیک آ رہا ہے، اور کمیٹی بناتے۔ ہم قانون کی بات کر رہے ہیں کہ اسکا اجلاس کب ہوا؟اسکا آپکو کوئی پتہ ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل ارباب طاہر کاسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کو کاغذی لوازمات اور کارروائی پوری کرنے کے لیے ایک ہفتے کا ٹائم دیا جائے وہ قانونی کاروائی پوری کر دیں گے، اور عدالت کے سامنے جمع کرا دیں گے جس پر جسٹس جمال نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسا ہوگا کہ ہم پہلے آپ کے کیس کو خارج کردیں، اس کے بعد فائل دیکھنے کے لئے طلب کریں۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ کی کمیٹی نے تعیناتی کے بعد آپ کو دستخط کرکے دے دیئے۔ ا گر کمیٹی کا کوئی شخص دستخط کرنے سے انکار کر دیتا تو آپ کی تعیناتی کی حیثیت کیا ہوتی؟ آپ کے پاس ایک سال کا ٹائم تھا۔ لگتا یوں ہے کہ ہم ملک اور صوبے میں اداروں کو مضبوط نہیں کرنا چاہتے ہمیں افراد کو نہیں صوبے اور ملک میں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ وائس چانسلر سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کے حوالے سے کیے گئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے وائس چانسلر کو کیس کا فیصلہ آنے تک بطور وائس چانسلر خدمات انجام دینے کی اجازت دیں جس کو عدالت عالیہ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اتنی جلدی کیا ہے؟ ایک سال میں آپ تیاری نہیں کر سکے اور اب آپ کو لگ رہا ہے کہ سب کچھ راتوں رات کر دیں گے؟جب معاملہ کورٹ میں آتا ہے تو ہم قانون دیکھتے ہیں۔ آپ آزاد لوگ ہیں، آپ کسی بھی رولز کے خلاف جا سکتے ہیں، ہم نہیں۔ ہم نے جو کچھ کرنا ہوگا اس کیس میں قانون کے مطابق کریں گے۔ یہ کس طرح کی تعیناتی ہے کہ جس میں سرچ کمیٹی کے منٹس نہیں ہیں؟تعیناتی بہت پہلے ہوء اور منٹس کل یعنی 20 تاریخ کے پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے؟یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ توقع نہ تھی کہ عدالت عالیہ اتنی تفصیل میں جا کر اس کیس کو اتنی گہراء سے دیکھے گی۔ اب دیکھیں اس معاملے کو یہ قانونی شکل کس طرح دے پاتے ہیں۔