اقوام متحدہ میں پاکستان انسانی حقوق کا پاسبان ؛تحریر :جیئند بلوچ

338

اقوام عالم نے پاکستان کے حوالے سے انسانی حقوق کے متعلق تمام خدشات و تحفظات کے باوجود اسے اگلے تین سالوں کے لئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن ملک تسلیم کرلیا۔

یہ فیصلہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے بھاری اکثریت سے کیاگیا پاکستان کو 151ممالک کے ووٹ ملے جبکہ سپر پاور امریکہ اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کی جانب سے پاکستان کے رکنیت کی مخالفت کئی گئی۔ اب جبکہ پاکستان دنیا کے لیئے اگلے تین سالوں کے لیئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیئے ایک محترم ملک بن گیا ہے تو اس سے یہ بجا توقع کی جاسکتی ہے کہ اب انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ ختم کردے گا ؟

جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو پاکستان میں اس کی پامالی کا گراف دنیا میں سے سے زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ ریاستی تشدد، دبائو، مذہبی جنونیت اور دہشت گردی اپنی جگہ شہریوں کے کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات میں جس پیمانے پر ملاوٹ کی جاتی ہے وہ ہوش ربا ہے۔ حتی کہ بڑے بڑے شہروں میں سرکاری سرپرستی میں قائم مذبح خانوں میں گدھے، کتے اور حرام جانوروں کا گوشت فرخت کیا جاتا ہے جبکہ مرغیوں کو وقت سے پہلے مطلوبہ معیار پر لانے کے لیئے غیر قانونی طریقے سے میڈیسن لگائے جاتے ہیں، دودھ کی فراہمی کے لئے کیمیکل استعمال کرنے کے ساتھ گائے اور بکریوں کو ویکسین لگائے جاتے ہیں جن کا دودھ انسانی صحت کے لیئے انتہائی مضر اور خطرناک ہوتا ہے۔

ان سب کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو انسانی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے معمولی جرائم میں کئی سالوں تک شہری قید ہیں ان کے مقدمات کی شنوائی نہیں ہوتی۔ عدالتوں سے بری ہوئے ملزمان پہلے ہی وفات پاچکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریاستی ادارے پولیس، ایف سی اور رینجرز سے شہریوں کی جان و مال غیر محفوظ ہیں۔ سب سے زیادہ ڈاکو اور چور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں جن سے عوام الناس کو خطرات درپیش ہوتے ہیں یہ ادارے عوام کو تحفظ دینے کے بجائے ان کی لوٹ مار کا زریعہ بن گئے ہیں کراچی، اندرون سندھ اور پنجاب میں شہریوں کی لوٹ مار کے جتنے کیسز سامنے آتے ہیں اگر ان کا حقیقی تناسب نکا لا جائے تو ان اداروں کی درندگی زیادہ ریکارڈ ہوتی ہے چونکہ یہ ریاست کے نگران ادارے ہوتے ہیں اس لئے براہ راست ان کے خلاف کسی کو بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی کیوں کہ یہ ایک فاشسٹ ریاست ہے جس کے لیئے شہری کا تصور صرف چند مخصوص اشرافیہ ٹہرتا ہے۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے دو بڑے حصوں مقبوضہ بلوچستان اور سندھ میں آزادی کی منظم تحاریک چل رہی ہیں جن کی سرکوبی کے لئے وسیع پیمانے پر فوج پاکستان آرمی، نیم فوجی ادارے ایف سی اور رینجرز برسر پیکار ہیں جبکہ خفیہ ادارے جن میں آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف بی آئی وغیرہ اور ان کی قائم کردہ ڑیتھ اسکواڈ بھی ان تحریکوں کے خلاف منظم ہو کر کھل کھلا جارحیت کررہی ہیں۔ اس وقت بلوچستان اور سندھ میں جبری گمشدگیوں کا عالمی ریکارڈ قائم ہے۔ اندروں سندھ، حیدر آباد اور کراچی میں سندھی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں اور مسخ لاشیں ملنے کا سلسلہ بلوچستان کے بعد شروع کردیاگیا ہے جس میں مختصر مدت کے دوران بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کے خلاف سندھی کارکنان وقتا فوقتا آواز بھی بلند کرتے ہیں۔

البتہ بلوچستان کی طرح سندھیوں کو درپیش ریاستی تشدد سے نجات دلانے کے لیئے کوئی طاقت نظر نہیں آرہی۔ سندھ سے قبل بلوچستان میں اس صدی کے آغاز سے جب پانچویں منظم قومی آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تب سے اب تک بلوچستان کھلم کھلا ریاستی تشدد کا شکار ہے۔ سیاسی کارکنوں کے ساتھ عام شہریوں پر بہیمانہ تشدد معمول کی بات ہے جبکہ 2000کی دہائی سے مسلسل بلوچ مختلف طبقہ فکر کو جبری گمشدگی اور مسخ لاشوں کے ملنے کا سامنا ہے۔ 2009میں جب قوم پرست سیاسی رہنما غلام محمد اور ان کے دو ساتھیوں کو آئی ایس آئی نے تربت شہر میں دن دھاڑے اغواء کیا تو تیسرے دن ان تینوں کی لاشیں قریبی پہاڑی علاقے سے ملیں جو بری طرح مسخ تھیں جنہیں پہچاننا بھی مشکل تھا اس کے بعد بہیمانہ تشدد کا نا رکنے والا سلسلہ شروع کیاگیا جو تیزی کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔2011کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے اقوام متحدہ کی ایک ٹیم آئی تھی جنہوں نے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ریاستی جبر کے شکار افراد کے خاندان سے معلومات حاصل کرنے کی کوش کی اس موقع پر بھی پاکستانی فوج، ان کے قائم کردہ اسکواڈز اور خفیہ اداروں نے دہمکا کر لوگوں کو اس ٹیم سے ملاقات سے منع کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے بہت قلیل تعداد میں لوگوں کی ملاقات ممکن ہوسکی جبکہ ٹیم کا قیام کا صرف کوئٹہ میں رہا اس وجہ سے بھی حقائق کا کھوج لگانا ان کے لیئے ممکن نا تھا کیوں کہ کوئٹہ کے علاوہ مکران، آواران، ڈیرہ بگٹی ، کوھلو اور دیگر بلوچ علاقے بدتریں شکل میں ریاستی آلام کا سامنا کررہے تھے لیکن اقوام متحدہ کی ٹیم وہاں نا جاسکی۔

بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کے الزامات سے قطع نظر جو وہ ریاستی اداروں پر لگاتے ہیں خود حکومت پاکستان کی بندوست میں بلوچستان صوبے کی وزارت داخلہ یہاں وسیع پیمانے پر جبری گمشدگیوں کا ہر سال اعتراف کرتی آرہی ہے۔ 2014کو وزارات داخلہ نے ایک سال کے دوران 9ہزار افراد کو جبری حراست میں لینے کا اعتراف کیا تھا جن کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی تھی جبکہ سال 2015کو 13 ہزار افراد کے اغواء کا اعتراف کیا گیا اسی طرح 2015اور 2016کو بھی وسیع پیمانے پر بلوچستان میں وزارات داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں جبری گمشد گیوں کو گرفتاری کہہ کر اعتراف کیاگیا البتہ ان تمام سالوں میں کسی بھی شخص کا نام ومقام لے کر ان کی شناخت ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

اس کے علاوہ سرگرم انسانی حقوق کا ادارہ بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائیزشین اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے قائم کی گئی وائس فار بلوچ مسنگ فرسن تنظیمیں کم از کم 25ہزار افراد کی جبری گمشدگی کا دعوی کرتی ہیں جو صوبائی وزارت داخلہ کے اعترافی بیانات سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہیں جبکہ انہی تنظیموں کا دعوی ہے کہ 12سے15ہزار گمشدگان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیں اس کے علاوہ ہیں۔

یوں اگر سی پیک جیسے خونی منصوبے کے آغاز سے بلوچستان کے بلوچ ایریا میں ریاستی اداروں پاکستانی آرمی، ایف سی ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کی جانب سے شہریوں کی جبری گم شدگی کا اوسط نکالا جائے تو روزانہ 100سے150افراد کی گمشدگی معمول کی بات ہے۔ان تمام حقائق سے قطع نظر اب جبکہ پاکستان پر اعتماد کر کے اقوام عالم نے انہیں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کا چھوتی بار رکن منتخب کیا ہے تو اس سے خود اقوام متحدہ اور ان کے ممبر ممالک کی انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق پالیسیوں پر جتنے سوالات تھے وہ تقویت پاتے ہیں اس سے ایک واضح ہے کہ عالمی برادری کردار کے بجائے مفادات اور تعلق داری کو زیادہ ترجیح دیتی ہے چاہیے کسی ایسی ریاست کو انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب کرایا جائے جن کا دامن ہر چہار جانب انسانی خون سے آلودہ کیوں نہ ہو۔