سانحہ کوٹ مبارک: بلوچ نسل کشی کی ایک نئی لہر – دودائی بلوچ

481

‎سانحہ کوٹ مبارک: بلوچ نسل کشی کی ایک نئی لہر

‎ تحریر: دودائی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کی نسل کُشی کا تسلسل روانی کے ساتھ جاری ہے. کہیں سالوں لاپتہ کر کے مسخ شُدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں تو کہیں دھماکوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع کیا جا رہا ہے. کہیں سڑکوں پر حادثات کی شکل میں چھیتڑے اُڑائے جا رہے ہیں تو کہیں ماورائے عدالت قتل کر کے بغیر شناخت دفنایا جا رہا ہے.  نسل کُشی کا یہ نہ تھمنے والا سلسلہ کیچ سے لیکر ڈیرہ غازیخان تک برسوں سے جاری ہے. ظلم و بربریت کا یہ تسلسل اب ڈیرہ غازیخان میں ایک نئی اور بھیانک شکل اختیار کر چُکی ہے جہاں نوجوانوں کو ڈکیتی کرنے یا ڈاکو ہونے کے بے بنیاد الزامات میں پولیس کے ہاتھوں سرعام چھلنی کر کے لاشیں پھینکی جا رہی ہیں.

‎ گُزشتہ ہفتے ڈیرہ غازیخان کے علاقے کوٹ مبارک میں رونما ہونے والے دل دہلا دینے والے واقعے میں جب دو بلوچ نوجوان عبداللہ اور حیدر کو پنجاب پولیس نے اس وقت اغوا کرنے کے بعد قتل کیا جب وہ شہر سے سودا سلف لیکر گھر جا رہے تھے۔ لادھی گینگ سے جھڑپ میں اپنے آدمیوں کے مرنے اور گینگ کیخلاف اپنی ناکام جارحیت کی پردہ پوشی کےلیے پولیس نے اِن دو معصوموں کو دہشتگرد تصور کر کے ان  کی جانیں لیں۔لادھی گینگ  چند خاندانوں پر مُشتمل ایک گروہ ہے جس کیخلاف پولیس سالوں سے نبرد آزما  ہونے کے باوجود آج تک کوئی خاطر خواہ کاروائی کرنے سے قاصر ہے.لادھی گینگ سے شکست خوردہ پولیس  حواس باختہ ہو کر عام جوانوں کو لقمہ اجل بنانے پر مجبور ہو رہی ہے جس کے زد میں کئی بے گُناہ  بلوچ نوجوان آ چُکے ہیں.علاقہ مکینوں کیمطابق آج تک چالیس سے زائد ایسے واقعات رونما   ہو چُکے ہیں جس میں پولیس نے بے بنیاد الزامات کی بنا کر بے گناہ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا.

‎تسلسل کیساتھ ایسے واقعات کا رونما ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ریاست بلوچ نسل کُشی  کےلیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے جس کےلیے سکیورٹی کے نام پہ سکیورٹی اداروں کو بے مہار چھوڑا جا چُکا ہے.ڈیرہ غازیخان میں جوانوں کا قتلِ  عام اس بات کی ثبوت ہے کہ بلوچ چاہے پاکستان کے جس کونے میں بھی ہو بے لگام اداروں کے خونخوار پنجوں سے کسی بھی صورت محفوظ نہیں. اِس کے علاوہ اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ مُلک میں بلوچ عوام کو آخری  درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے جس کی جھلک ڈیرہ غازیخان میں ہونے والے واقعے کے بعد پاکستان کے سوّل سوسائٹی کے خاموشی کی شکل میں دکھائی دی. سانحہ ساہیوال پر چیخ و پکار  کرنے سے جہاں پاکستانی سوّل سوسائٹی تھکنے کا نام نہیں لے رہی تھی وہاں آج بلوچ قوم پر ہونے والے  اسی نوعیت کے مظالم پر اُسے سانپ سونگھ چُکی ہے. سوشلزم کے وہ دعویدار جو مزدوروں کے حقوق کی راگ الاپتے رہتے ہیں آج عرب امارات میں مزدوری کے دوران چھٹیوں پر وطن واپس آئے ہوئے اِن  بلوچ نوجوانوں کی قتل پر گونگے اور بہرے ہو چُکے ہیں.

‎بلوچوں پر ظلم وبربریت  آج کا معمہ نہیں بلکہ برسوں سے جاری ہے.ڈیرہ غازیخان میں ہونے والا واقعہ بلوچ نسل کُشی کی ہی ایک کڑی ہے. لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ قوم  سوّل سوسائٹی جیسے نام نہاد انسانیت کے علمبردار تنظیموں کی راہ تکنے کے بجائے خود ایسے واقعات کے خلاف یکجا ہو کر اپنی آواز آپ بنیں کیونکہ یہ بات اٹل ہے کہ جب تک پوری بلوچ قوم خود ایسے واقعات کیخلاف ڈٹ کر کھڑی نہیں ہو گی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے. آئیں مل کر اِس واقعے کیخلاف آواز اٹھائیں,اپنی آوز کو احتجاج کی شکل دیں کیونکہ آج اگر ہم اس کیخلاف آواز نہیں اٹھاتے تو  وہ دن دور نہیں جب عبدالللہ اور حیدر کے عزیزواقارب کی طرح ہم یا ہمارے پیارے اسی کرب مبتلا ہوں. آواز اٹھائیے!! اس سے پہلے کہ کہیں آپ کےلیے آواز اٹھایا جائے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔