شہید چیئرمین فتح کی کچھ یادیں اور انکا لِیلا – حیدر بولانی

274

شہید چیئرمین فتح کی کچھ یادیں اور انکا لِیلا

تحریر: حیدر بولانی

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں ایک ایسے ہستی کے بارے میں لکھ رہا ہوں، ایسے عظیم انسان کے بارے میں لکھ رہا ہوں کہ میں حیران ہوں کہ اسکی کون کون سی باتیں اور یادیں لکھوں، اسکا نام لیتے ہی اسکی ہزاروں یادیں آنکھوں کے سامنے آتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ شہید نہیں ہوا ہے، وہ ہمارے ساتھ ہے، اسکی میٹھی میٹھی باتیں، اسکا دوستوں پہ جان چھڑکنا، دشمنوں پہ قہر بن کر ٹوٹ پڑنا، انکا دوستوں کو حوصلہ دینا، ہر بات سمجھداری کے ساتھ کرنا، میدان جنگ میں دشمنوں کو شکست سے دو چار کرنا، اسکا سنگتوں اور تحریک کے ساتھ مخلصی، ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔

مجھے یاد ہے آج بھی وہ دن جب میں پہلی بار شہری کام چھوڑ کر کچھ دنوں کیلئے سنگتوں سے ملنے پہاڑوں کا رخ کیا ایک دوست کے ساتھ، سفر لمبا اور پرکھٹن تھا، میں نے پہلے اتنا کبھی پیدل نہیں کیا تھا، پورا دن پیدل چلنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا اور پیروں میں بھی درد ہورہا تھا، پورا دن پیدل سفر کے بعد آخر کار ہم مغرب کے بعد وتاخ پہنچ ہی گئے، پہنچتے ہی سنگتوں نے پانی پلایا اسکے بعد حال احوال ہوا تو میرے ساتھ جو سنگت تھا اس نے احوال دیا، چونکہ میرا پہلی بار آنا تھا وتاخ میں اس لیئے مجھے وتاخ کے اصولوں کا پتہ نہیں تھا، اسکے بعد سنگتوں نے روٹی کھلایا ہمیں، مجھے تھکن کی وجہ سے بہت نیند آرہی تھی، اتنے میں شہید فتح بلوچ وتاخ میں آ گیا، مجھے دیکھتے ہی مسکرانا شروع کردیا اور کہا( شہری سنگت آک بسونوں) مطلب شہری ساتھی آئے ہیں، مجھے ایسا لگا کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے ییں، وہ آکر ہمارے ساتھ بیٹھ گیا ہم سے اسطرح باتیں کی جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اس نے ہمیں ایک استاد کی طرح سمجھایا کہ کس طرح شہر میں رہ کر دشمن کے نقل و حرکت پہ نظر رکھا جائے اور کس ہوشیاری سے اپنے اپنے فرض کو انجام دیا جائے۔ مجھے اسکی باتیں اسکا لہجہ بہت پسند آیا، مجھے میرے تھکن کا بھی خیال نہیں آیا اس قدار مطمئین کیا ہمیں۔

شہید فتح نے مسکرا کر مجھے کہا اب سوتے ہیں، صبع پھر اکھٹے ہیں بات کرینگے، ہر ایک سنگت سونے کیلئے الگ الگ سمت میں جانے لگا کیونکہ گوریلا وار میں سنگتوں کا ایک ہی جگہ سونا یا قیام کرنا ٹھیک نہیں، دشمن کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتا ہے اس سے ہم بہت بڑا نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں، کچھ دن سنگتوں کے ساتھ قیام کے بعد واپس شہر کی طرف لوٹنا پڑا تو مہربان سنگت جب بھی نیٹورک پہ آتا تھا مجھ سمیت سب سنگتوں سے حال احوال کرتا تھا، بے پناہ سچائی اور اور مخلصی چھپی تھی اسکی باتوں میں، جب وہ بات کرتا تھا تو دل کرتا تھا کہ ہر وقت سنگت کی باتیں سنوں، ہر وقت ہم سب کو نصیحت کیا کرتا تھا کہ دشمن سے کس طرح چوکنا رہنا چاہیئے، یہ سب ہمیں بتاتا تھا اور جو بھی کام اسے سونپا جاتا تھا اسے پوری لگن اور ایمانداری سے بہ خوبی نبھاتا تھا، سب دوست اس سے بہت خوش تھے کیونکہ وہ ایک ایماندار ساتھی تھا۔ ہر محاذ پہ انتہائی دیدہ دلیری سے اور نئے نئے حکمت عملی سے دشمن پہ ٹوٹ پڑتا اور دشمن کو شکست دیکر حملے کو کامیاب بناتا تھا۔

ایک سال تک ان سے حال احوال ہونے کے بعد ایک بار پھر سے پہاڑوں کا رخ کرنا پڑا، تو وہاں پہنچتے ہی سنگتوں سے حال احوال ہوا تو میں نے چیئرمین کے ایک سنگت سے پوچھا کہ سنگت دکھائی نہیں دے رہا، اس نے جواب میں کہا کہ کچھ کام کے سلسلے سے گیا ہے، باقی سنگتوں کے ساتھ آئیگا۔

اب میری بے چین نگاہیں ہر طرف مہربان سنگت کو ڈھونڈ رہی تھیں کہ کہاں سے آئیگا؟ کہیں سے بھی کوئی آہٹ سنتا خوشی سے اٹھ جاتا کہ چیئرمین شاید آ گیا، اس طرح رات ہوگئی، انتظار کرتے کرتے آخر دل کو تسلی ہوا کہ شاید کل صبح آئیگا۔

اتنے میں کچھ لوگوں کی باتوں کی آواز آئی اور باتیں کرتے کرتے وتاخ میں داخل ہوگئے، میں نے جب دیکھا تو شہید جنرل استاد اسلم بلوچ اور شہید فتح بلوچ کچھ ساتھیوں کے ساتھ وتاخ میں آگئے، ہم سب انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے، سب سے زیادہ مجھے خوشی ہوا کیونکہ میری دلی خواہش تھی کہ ایک بار جنرل سے مل لوں اور چیئرمین کا تو پورا دن ہی انتظار رہا تھا۔

انہیں بٹھانے کے بعد انہیں پانی پلا کے ان سے حال احوال پوچھا تو حال احوال میں پتہ چلا کہ جنرل اپنے ساتھیوں سمیت ایک مشن سے ہوکر آ رہے تھے، میری لیئے وہ رات عید سے کم نہیں تھی، میں اتنا خوش تھا کہ زندگی میں پہلے کبھی بھی اس طرح خوش نہیں ہوا تھا۔ ہم سب وتاخ میں تھے، جنرل نے ہم سب کو لیکچر دیا اور بہت ہی بہترین لیکچر دیا کہ ایک محب وطن کو کس حد تک اپنے وطن کے ننگ و ناموس کی خاطر دشمن ریاستی اہکاروں کو کیسے پسپا کر کے اپنے لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے اور کس طرح گوریلہ حکمت عملی اپنا کر شہر میں رہ کر دشمن پہ وار کرنا چاہیئے، اس کے ساتھ بیٹھ کر انکی باتیں سن سن کر پتہ بھی نہیں چلا کہ کیسے آدھی رات ہوگئی۔

شہید جنرل نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر مجھے بہت ہی بہترین استاد کی طرح اور بہترین انداز سے لیکچر دیا اور سمجھایا مجھے انکی باتیں اور اسکا لیکچر بہت پسند آیا۔ خیر انکی باتوں باتوں میں پتہ نہیں چلا رات کافی دیر ہوچکا تھا، ہم سب سوگئے۔

صبح سویرے اٹھتے ہی چیئرمین پانی لانے کے لیئے نکل گیا، تو میں نے بھی اس کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی، اس آس پہ کہ چیئرمین کی مدد بھی کرونگا اور اس سے باتیں بھی کیونکہ چیئرمین کی باتیں مجھے بہت پسند تھیں، میں نے اس سے اسکی پہاڑوں میں گذرے دنوں اور ریاستی اہلکاروں سے دو بدو جنگ کی باتیں پوچھا، تو اس نے مجھے اپنی زندگی کے بارے میں تو بتایا لیکن ریاستی اہکاروں سے ہوئے جھڑپوں کے بارے میں بتانے سے انکار کیا اور یہ بتایا کہ ایک گوریلہ کو یہ باتیں صرف اور صرف اپنے کمانڈر کو بتانا چاہیئے اور کسی ساتھی کو نہیں کیونکہ کئی بار دشمن ریاست کے جاسوس بھی ہمارے درمیان سے پکڑے گئے ہیں، اس لیئے دشمن کو پتہ بھی نہیں چلنا چاہیئے کہ یہ کاروائی کس سنگت نے کی۔ میرے بار بار پوچھنے اور تنگ کرنے کے بعد، اس نے اپنے اور شہید ڈاکٹر قمرالدین بلوچ کا ایک واقعہ سنایا۔

اسپلنجی کے علاقہ پشک کے مقام پہ چیئرمین اور شہید ڈاکٹر قمرالدین کا فورسز کے ساتھ آمنا سامنا ہوا، اس نے کہا ایک دن میں شہید ڈاکٹر قمرالدین اور ایک ساتھی پہاڑوں سے نیچے اتر کر اسپلنجی سے سامان لینے گئے، ہم سامان لیکر واپس وتاخ کی طرف نکلنے والے تھے کہ ایک وتاخ کا سنگت بھی گاڑی میں پہنچ گیا، ہم موٹرسائیکل پہ تین سنگت تھے اور سامان بھی، تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس سنگت کے ساتھ اسکے گاڑی میں سامان بھیجتے ہیں، ہم نے اس سنگت کو سامان دیکر روانہ کیا تو ہم بھی اسکے پیچھے پیچھے نکل گئے، جب ہم پشک کے مقام پہ پہنچ گئے تو اچانک دیکھا کہ دشمن ریاست کے کئی گاڑیاں اور سینکڑوں ریاستی اہکاروں سے ہم آمنے سامنے ہوئے، ہمارے ساتھ گولیاں بھی کم تھے اور ہم تین وہ سینکڑوں کے حساب سے، انکے ساتھ راکٹ لانچر، مشین گن، بی ایم 12 اور بھی کئی طرح کے ہتھیار، ہمارے پاس صرف تین کلاشن کوف اور 3/4 میگزین۔

بس صرف ایک ہی چیز ہمارے ساتھ تھا، جو انکے ساتھ نہیں تھا، وہ تھا ایمان اور وطن کا جذبہ، ہم وطن کے جذبے سے سرشار اور وہ قابض بے ایمان، جب ہم موٹر سائیکل سے اتر کر اپنے بندوقوں کا رخ انکی طرف کیا تو وہ بے ایمان ہوگئے اور ہم کو دیکھ کر بھی ان دیکھا کرگئے اور ہم ایک دوسرے کو کور دے کر انکے درمیان سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، ہمارے پاس کلاشن کوف کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا، جو ہم انہیں دور سے مارتے اور کلاشن کوف کا اتنا رینج بھی نہیں تھا، تو اس صورت میں ایک گوریلا کو صرف اور صرف اپنا بچاو کرنا چاہیئے۔

پورے راستے چیئرمین کا یہ واقعہ سننے کو ملا اور وراج پہنچتے ہی ہم ہجرت کرگئے، اس طرح مجھ جیسے خوش نصیب کو جنرل اور شہید فتح کے ساتھ کچھ دن ایک ہی وتاخ میں گذارنے کو ملے۔

شہید فتح بلوچ کا لیلا ( بکری کا بچہ)، شہید فتح اسے پیار سے بچہ کہتا تھا، ایک دن ناپاک آرمی نے ایک خونی آپریشن شروع کیا، ہمہیں پتہ چلا کہ آپریشن ہورہا ہے، ہم سب نکل گئے، 3 ساتھی ایک طرف تو 2 ایک طرف، ہم سب الگ الگ سمت کی طرف روانہ ہوگئے، ہمارے پاس کچھ بھیڑ بکریاں بھی تھیں، واپسی پہ جب ہم آئے تو ایک لیلا(بکری کا بچہ) اپنے ماں سے بچھڑ گیا تھا، بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی اسکا ماں نہیں ملا، ہم سب کو لگتا تھا کہ لیلا مر جائیگا لیکن چیئرمین کو ایک ترکیب سوجھی، اس نے ایک سرینچ کے ذریعے اسکو دودھ پلانا شروع کیا، بلآخر وہ لیلا بڑا ہوگیا، لیلا اس قدر چیئرمین کا عادی ہوگیا کہ جب بھی چیئرمین سوتا تھا اسکے پاس جاکر لیلا بھی سوتا تھا، چیئرمین اسے پیار سے بچہ بلاتا تھا اور اپنے پلیٹ میں اسے روٹی کھلاتا تھا۔

ایک دن جب استاد بولان جارہا تھا تو چیئرمین کو بھی ساتھ چلنے کا کہا تو چیئرمین نے مجھے لیلا سونپا اور کہا حیدر میں یہ بچہ تمہیں سونپ رہا ہوں، بچہ کا خیال رکھنا اور ہم سب سے رخصت کرنے کے بعد لیلا کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا کر اسکی آنکھیں نم ہوگئیں اور بچہ کے سر پہ ہاتھ رکھنے کے بعد اسکے سر کو چوم کر جنرل کے ساتھ چل دیا اور بعد میں ہمارا حال احوال جب بھی موبائل پہ ہوتا وہ بچہ کا پوچھتا اور مجھے کہتا کہ بچہ کا خیال رکھنا۔

ایک دن ہم کہیں جارہے تھے تو میں نے بچہ کو ایک سنگت کے حوالہ کیا کہ اسکا خیال رکھنا کچھ دن بعد پتہ چلا کہ وہ سلامی ہوگیا ہے، اس نے سرینڈر کیا ہے اور ہمارے بچہ کو بھی لے گیا تھا اور کچھ وقت کے بعد چیئرمین کی بھی شہادت کی خبر سننے کو ملا اسطرح سے چیئرمین اور اسکا بچہ ہم سے بچھڑ گئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔