تیرہ نومبر
تحریر: مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں کون ہوں؟ پتہ نہیں کہاں سے آیا ہوں، پتہ نہیں، یہ کونسی جگہ ہے؟ میں اکیلے رات کی تاریکی میں بیٹھے یہ سوچ رہا تھا کہ اچانک سے ایک بے چینی سی محسوس ہونے لگی ۔ دل زور زور سے ددھڑکنے لگا۔ سانسیں تھمنے لگیں۔ کچھ دیر بعد آنکھوں میں آنسو آنے لگے اور دھیرے دھیرے زبان بھی خشک ہونے لگا۔ دور سے بھیڑیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور آس پاس ہواوں کا بھی چلنا شروع ہوا۔ بکھرے پتوں کے ہوا میں اُڈنے نے مجھے اور بھی پیچیدگیوں میں دھکیل دیا۔ درختوں کے شاخوں کی جُنجھلاہٹ نے ایک ڈراونی سی لہر میرے دل میں چھوڑ دیا۔ جسم کو چھو لینی والی ہواوں نے جسم کو تارتار کردیا۔ میں اپنے آپ کو اس ماحول سے رخصت کرنے کی کوشش میں تھا کہ اچانک بھیڑیوں نے حملہ کر لیا۔ میں چاروں طرف انکے گھیرے میں آگیا۔ھر طرف خوف و ہراس طاری ھوا۔
یہ 13 نومبر کی رات تھی ہر طرف چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ لوگ خون کی ندیوں میں نہا رہے تھے۔ ہر طرف بھیڑیوں نے حملہ کیا تھا، میں بھی وہیں تھا۔ ماوں اور بچوں کا اپنے سینے کو زمین پر رگڑ رگڑ کر رونا اس بات کا ثبوت دے رہا تھا کہ ہاں قیامت اب آ گئی ہے۔ لیکن ایک بات مھجے کھائی جارہی تھی کہ ہم دوزخ میں کیوں جل رہے ہیں؟ کیوں ہمیں اتنی سزائیں دی جارہی ہیں۔ کبھی جسم کو گرینڈر سے سوراخ کیا جارہا ہے، تو کھبی سینے کو چاک چاک کرکے دل و جگر کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ کھبی تپتی دھوپ پے چھتر مار مار کے لٹایا جارہا ہے تو کبھی برف کے گولوں میں قید کیا جارہا تھا۔ آخر کون ہیں یہ بھیڑیئے جو بڑی بے دردی سے ہمیں قتل کررہے ہیں۔ ہر وقت جُھنڈ میں آتے ہیں اور حملہ بول دیتے ہیں، گر کسی کو شہید کیا تو ٹھیک آئے روز لوگوں کو شہید کرنا انکا روز کا مشغلہ ہے۔
ان بھیڑیوں نے مھجے چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بھیڑیئے نے بڑی بے دردی سے اپنی دانتیں میرے جسم کے اندر گھسا دیئے۔ ہر طرف خون ہی خون دکھائی دینے لگا، یہ تاریک رات، سرخ دریا میں اسطرح تبدیل ہوگیا کہ ہوش کھو بیٹھا۔ ایک جسم بھی صحیح سلامت نہیں تھا۔ کسی کا سر تو کسی کا پیر، کسی کا دل تو کسی کا جگر اس خون کے سمندر میں بے یارومددگار گوادر کی یتیم کشتیوں کی طرح ڈوب رہا ہے۔
خون اور آنسُووں کا مرکب ظلم کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔۔
ان خیالوں کی دنیا میں آہستہ آہستہ ایک طوفان سا اُٹھنے لگا، درد کی شدت بھڑنے لگی ۔ خون کی ندیاں ابلنے لگیں۔ آگ کے بادلوں نے آسمان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا، آگ کے بادل گرجنے لگے۔ سب گھر جل گئے۔ خون کی ندیوں سے نکلنے والی بخارات میں 13 نومبر کی سانسیں چل رہی تھیں۔
تبھی اچانک خاموشی سی چھا گئی۔ آنکھ کُھل گئی، دیکھا کہ وہ گلستان جو کھبی خوبصورت درختوں، سبزہ زار، گلاب کے پھولوں اور پرندوں کے چہچہانے میں مدھوش تھا۔ آج درختوں اور پھولوں کے بجائے لوگوں کے لاش اور پرندوں کے چہچہانے کے بدلے ظلم کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔