اکیسوی صدی اور بلوچستان
تحریر: غلام رسول آزاد
دی بلوچستان پوسٹ
ملک و قوم رفتہ رفتہ ایک نئی دنیا قائم کرنے کی طرف رواں دواں ہیں، قوموں کا عروج ملکوں کا عروج بنتا ہے اور قوموں کا زوال ملکوں کی زوال ہوتی ہے۔ امریکا، روس، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ اور باقی ملکوں کو اگر دیکھاجائے تو کس قدر ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور پاکستان صدیوں سال پیچھے ہوچکاہے، پاکستان کا دوسرے ممالک کے ساتھ موزانہ کر بھی نہیں سکتے، پاکستان اس قدر بےبس اور لاچار ہو گیا ہے، معشیت قرضہ جات پر چل رہی ہے، سیاست کرپشن اور اقرباء پروری کی بھینٹ چڑھی ہے۔
ہمارے پاس اکیسویں صدی میں بھی بنیادی حقوق اور سہولیات سےمحروم لوگ ہیں، جن کے پاس تو قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے مگر جبری طور پرنہ تعلیم، نہ اسپتال، نہ ہی روز مرہ زندگی کی سہولیات ہیں۔
تعلیم کی بات کریں تو حکومتی اداروں سے دعوے دار تو بہت آتے ہیں مگر صرف اپنی مفاد کیلئے جو کہتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان کو ہر تعلیمی معیار فراہم کی ہے، اور شور و زور سے نعرے لگاتے ہیں بلوچستان پڑھے گا، بلوچستان بڑھے گا، مگر کب ؟
اسکول کی کچی دیواریں چیخ چیخ کر کہہ رہےہیں کہ یہ اکیسویں صدی ہے، کالجوں کی راہوں کی ویرانگی بتارہی ہے کہ طلباء علم کےکتنے پیاسے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں موجود طلباء کی بےچینی بتارہی ہے کہ کتنے ذہنی غلامی کے شکار ہیں۔ یہ بات تو دور کی بات ہے دنیا چاند پر جاپہنچی ہے مگر بلوچستان کا ہے شعبے میں استحصال کیا گیاہے۔
ہم اس درد کو روتے ہیں کہ ہمیں معیاری تعلیم نہیں ملی اور تعلیم حاصل کرنے اپنے گھروں سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھاکراپنے سوچ و فکر کو معیاری بنانے کے لیئے ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری آنے والی نسل اس درد کو نہ روئے، اور اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے تعلیم کو حاصل کرسکے، اور اسی سوچ و فکرکو اور اس کی زندگی کو زندہ رہنے نہیں دیا جاتا ہے۔
فرانس کے مشہور فلسفی جین جیکس روسو نے کہا انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر آج کل ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
اسی طرح بلوچوں کا کھل کے سانس لینا بھی جرم بن گیا۔ تعلیمی ادارے تعلیمی ادارے کے بجائے ڈر اور خوف کے آماجگاہ بن گئے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ اساتذہ سے زیادہ سیکورٹی کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ تعلیم و شعور حاصل کرنا سزا ہوچکا ہے،حق کی بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ زندہ رہنے کا حق تو انسان کا بنیادی حق ہے مگر یہ حق بھی چھینا جارہاہے۔
ہر انسان انصاف، امن، محبت اور خوشحالی سے رہنا چاہتاہے اور اپنے حقوق اور بنیادی سہولیات کا حامل ہونا چاہتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔