جامعہ بلوچستان اور طلباء کی ذمہ داری – پیردان بلوچ

480

جامعہ بلوچستان اور طلباء کی ذمہ داری

تحریر: پیردان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک پرامن سیاسی تنظیم بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے بی ایس او کے دوست روپوش ہونے کے بجائے عوامی سطح پر جلسے جلوس کرتے ہیں، عوام تک اپنا مقدمہ لے جاتے ہیں پارلیمانی سیاست کرنے والے قوم پرستوں کا کردار مشکوک اور کم ہوجاتا ہے ۔

اکثر طلباء پڑھائی چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں مسلح جد وجہد کرنے والے تنظیموں سے مل کر عملاً مسلح جدوجہد میں شامل ہوتے ہیں

یہ قوم پرستانہ سوچ جہاں سے پیدا ہورہا ہے وہاں اس سوچ کو زندہ ہونے سے پہلے مارنے کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سمیت انجئنرنگ یونیورسٹی خضدار ، ڈگری کالج تربت، پولی ٹیکنک کالج، بیوٹمز بی ایم سی کے ساتھ ساتھ پرائمری اسکولوں کو فورسز کے حوالے کردیے جاتے ہیں تاکہ جہاں سے قوم پرستانہ سوچ قومی غلامی کا پہلا درس ملتا ہے وہاں کے ماحول کو خوف اور زنگ آلود بنایا جائے،
سیاسی سرکلز کی جگہ بکتر بند گاڑیاں، بندوق بردار مسلح اہلکار لیتے ہیں مگر دشمن چونکہ مکار ہے اور وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے تو وہ بلوچستان یونیورسٹی جو بلوچستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے وہاں دو قدم آگے آکر واش روم سے لے کر یونیورسٹی کی چھوٹی گلیوں تک سیکورٹی کے نام پر کیمرے نصب کردیتا ہے،جس سے طلباء و طالبات کو بلیک میل کرنے کا عمل شروع کردیا جاتا ہے چونکہ زہن پہلے سے غلامانہ سوچ اور ڈر سے واقفیت رکھتے ہیں تو اکثر طلباء و طالبات اس ٹریپ میں آجاتے ہیں پارلیمانی سیاست کرنے والوں کو تھوڑا بلوچ طلباء سیاست جہاں انکی زیادہ پوزیشن ہوتی تھی وہاں سے ریلیف مل جاتا ہے ،اور یہ سلسلہ آٹھ سال کی محنت سے گذشتہ تین سے چار سال تک جاری رہتا ہے جہاں اپنے ساتھی طلباء طالبات کی مخبری سے لے کر ہر غلیظ کام لیا جاتا ہے اگر پہلا متاثر سامنے آتا تو اس کے بولنے پر کئی اور طلبہ اس ٹریپ میں نہیں آتے ،اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر جو گورنر کے حکم سے منتخب ہوتا ہے ، مگر گورنر جو نام نہاد وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے وہ کس پارٹی کا منظور نظر رہا ہے ؟

پاکستان کے باقی تمام جامعات میں ہر دو سال بعد وائس چانسلر تبدیل ہوتا ہے موجودہ وائس چانسلر جو انیسو تیرانوے میں ایک عورت کو ہراساں کرنے کے جرم میں لیکچر شپ سے ہٹا دیا جاتا ہے اسے دوبارہ اسی یونیورسیٹی کا وائس چانسلر بنایا جاتا ہے،لیکن یہاں خصوصا بلوچ طلباء و طالبات کی زمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ ہونے والے ازیت ذہنی اور جسمانی کرب کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اور بلوچستان میں رہنے والے ہر قومیت اور ہر طبقے کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس اسکنڈل کی بنیاد تک نہ پہنچے پر طلباء و طالبات کا ساتھ دیں اور اس غلیظ اور غیر انسانی عمل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔