سوشل ازم سائنس ہے | تیسرا حصہ – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

162

سوشل ازم سائنس ہے | تیسرا حصہ

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

بے شک معروضی حالات انقلابی جدوجہد پر زبردست طریقے سے اثرانداز ہوتے ہیں لیکن انقلاب کی کامیابی کا فیصلہ کن عنصر معروضی حالات میں نہیں بلکہ اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ انقلاب کی قوت متحرکہ کو کیسے مضبوط کیا جائے اور کیسے اس کے کردا ر کو بہتر کیا جائے۔ خواہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک ہو یا ترقی پذیر ملک، سوشل ازم وہاں کامیاب و سرخ رو ہوسکتا ہے بشرطیکہ مستعدی سے کام کر کے انقلاب کی قوتِ متحرکہ کو مضبوط بنایا جائے اور اس کے کردار میں اضافہ کیا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سوشل ازم پہلے مقابلتاََ پسماندہ ممالک میں کامیاب ہوا نہ کہ ان ملکوں میں جہاں سرمایہ داری ترقی کر چکی تھی۔ ہمارے انقلاب کا تجربہ جو کہ نظریہ جوچے کے پرچم تلے آگے بڑھا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہم انقلاب کی قوتِ متحرکہ کو مضبوط بنائیں اور اس کے کردار میں اضافہ کریں تو ہم نہ صرف موافق معروضی حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ ناموافق معروضی حالات کا بھی سازگار بنا سکتے ہیں اور یوں بدنصیبی کو خوش نصیبی میں بدل کر انقلاب کی کامیابی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

تاریخ کے مادی زوایہ نگاہ پر مبنی پیش رو نظریے کی حدود وقیود سوشلسٹ نظام کے قیام کے بعد سے سوشلسٹ تعمیراتی عمل کے دوران زیادہ واضح طور پر ظاہر و باہر ہوتی رہی ہے۔

بالعموم معاشری جتنا زیادہ ترقی کرتا ہے سماجی تحریک کوچلانے والی قور عوام الناس کا کردار اس میں اتنا ہی زیادہ وسیع ترہوتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے آزادانہ شعور اور تخلیقی استعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں سماجی تحریک کو چلانے والی قوت کے طور پر عوام الناس کے کردار میں عدیم النظیر سطح تک اضافہ ہوجاتا ہے۔سوشلسٹ معاشرہ اعلیٰ درجے کے شعور سے لیس اور فرد واحد کی طرح متحد عوام الناس کی تخلیقی قوت کی بدولت ترقی کرتا ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں سوشل ازم کے مادی و اقتصادی حالات پیدا کرنے کی نسبت انسان کو ڈھالنے، اس کی نظریاتی کایا پلٹنے کو زیادہ اہمیت اور بنیادی کام کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ انسان کی کایا پلٹنے کے کام کو اولیت دینے سے ہی انقلاب کو عملی جامی پہنانے والی قوت کو مضبوط بنانا اور اس کے کردار کو بڑھانا ممکن ہو تا ہے جس سے سوشلزم کامیابی سے پروان چڑھتا ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں اگر عوام الناس کی نظریاتی تبدیلی کو ثانوی حیثیت دی گئی اور انقلاب کو عملی جامہ پہنانے والی قوت کو مضبوط بنانے اور اس کا کردار بڑھانے کے کام سے غفلت برتی گئی جبکہ معروضی مادی و اقتصادی حالات کو فیصلہ کن اہمیت دیتے ہوئے صرف اقتصادی تعمیراتی عمل پر ساری توجہ مرکوز کر دی گئی تو مجموعی طور پر سوشل ازم کی تعمیر کو بطریق احسن عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا اور خود اقتصادی تعمیری عمل جمود سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ بعض ممالک جو ماضی میں سوشل ازم کی تعمیر کر ریے تھے انہی کوتاہیوں کا شکار تھے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل ازم کے منحرفین نے ”اصلاحات“ کو لاگو کیا اور انقلاب مخالف حرکتوں کا ارتکاب کیا اور آخر کار خود سوشلسٹ اقتصادی نظام کو ہی تباہ کر دیا۔

ماضی میں مارکس ازم کے بانیوں نے مادی و اقتصادی حالات پر زور دیتے ہوئے سوشلسٹ ںظریہ وضع کیا اس کی وجہ اس حقیقت میں مضمر ہے کہ بورژوائی رجعت پسندانہ نظریے کو رد کرنا ایک اہم تاریخی فریضہ تصور کیا جاتا تھا جس نے سرمایہ داری کو واجب التعظیم بنا دیا تھا اور تصوف اور تقدیر کے عقائد کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی ہمیشگی کا پرچار کرتا تھا لیکن اب سوشل ازم کے منحرفین سرمایہ داری کو زندہ کرنے کے لیے مادیت قادر مطلق ہے اور معیشت قادر مطلق ہے کا راگ الاپ رہے ہیں جس سے لوگوں کو فریب میں مبتلا کرتے ہیں۔

سوشل ازم کو نئی سائنسی بنیاد پر استوار کرنا فوری نوعیت کا بہت اپم فریضہ تصور کیا جارہا تھا جس کے ذریعے نہ صرف سوشل ازم کی پیش رو تھیوری کی تاریخی حدود و قیود پر قابو پانا تھا بلکہ تمام قسم کے موقع پرستانہ بگاڑ اور سامراجی حملوں سے بھی سوشلزم کا دفاع کرنا تھا۔

سوشل ازم کو ایک نئی سائنسی بنیاد پر استوار کرنے کا تاریخی فریضہ کامیابی کے ساتھ عظیم قائد کامریڈ کم ال سنگ نے انجام دیا جنہوں نے نظریہ جوچے تخلیق کیا اور ایک اصل سوشلسٹ فلسفہ اس بنیاد پر وضع کیا۔ کامریڈ کم ال سنگ نے یہ فلسفیانہ اصول دریافت کیا کہ انسان ہر شے کا مالک ہے اور ہر بات کا فیصلہ کرتا ہے۔ انھوں نے ایک نئے قانون کی توضیح کی جو سماجی تحریک کا احاطہ کرتا ہے جو قوتِ متحرکہ کی تحریک ہے۔ اس طرح انھوں نے سوشل ازم کو ایک نئی سائنسی بنیاد پر استوار کیا۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نصب العین جیسا کہ نظریہ جوطے نے صراحت کی ہے عوام الناس کا مکمل آزادی و خود مختاری کا نصب العین ہے۔ سوشل ازم جیسا کہ عظیم قائد کامریڈ کم ال سنگ نے سائنسی طور پر بیان کیا مرکز البشر سوشل ازم ہے اور سوشل ازم عوام الناس پر مرکوز ہوتا ہے۔ ہمارا سوشل ازم وہ ہے جہاں عوام الناس ہر شے کے مالک ہیں جہاں ہر شے ان کی خدمت کے لیے ہے اور جو ان میں متحدہ کوششوں سے ترقی کر رہا ہے۔ سوشل ازم کی جوچے آمیز فکر نے انسان کو مرکز میں رکھ کر سائنسی طور پر سوشل ازم کی روح اور اس کی ترقی و ارتقا کے قانون کی صراحت کی۔ اس بنیاد پر جوچے فکر نے وضاحت کی کہ سوشل ازم کو کامیابی سے روبہ عمل لانے کے لیے نظریاتی اور مادی قلعوں پر قابض ہونے کی غرض سے زبردست جدوجہد عمل میں لائی جائے گی اور دونوں میں سے قطعی اولیت نظریاتی قلعے کو حاصل کرنے کی جدوجہد کو دی جائے گی۔

سوشل ازم کے جوچے آمیز نظریے کی سائنسی صحت اور سچائی ہمارے انقلاب کے عملی تجربے سے ثابت کی جاچکی ہے۔ ہمارے عوام نے نوآبادیاتی نیم جاگیردارانہ معاشرے کے پسماندہ حالات میں سے سوشل ازم کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ انھیں غیر معمولی مشکل حالات میں انقلاب اور تعمیراتی کاموں کو عملی جامہ پہنانا پڑا۔ اس کے باوجود ہماری پارٹی نظریہ جوچے کے مطابق عوام الناس کو پارٹی اور لیڈر کے پیچھے تنظیمی و نظریاتی طور پر سختی سے متحد کرنے کے مستقل اصل کام کو انجام دے کر سوشل ازم کی راہ روشن کرنے میں کامیاب رہی جس کی بنا پر انقلاب کو روبہ عمل لانے کی قوت کو مزید استحکام ملا اور اس کے کردار میں اضافہ ہوا۔ ہماری پارٹی سوشل ازم کی تعمیر کے تمام کام میں انسان کو بدلنے اور نظریاتی کایا پلٹ کو قطعی اولیت دے کر ہر ممکن طریقے سے ہمارے انقلاب کی سیاسی و نظریاتی قوت میں اضافہ کر رہی ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی خود انحصارقومی معیشت اور دفاع کو مزید طاقت ور بنا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ انقلاب اور تعمیراتی عمل کو موجودہ پیچیدہ حالات میں بھی پوری شدت سے بلا پس وپیش آگے بڑھا رہی ہے۔ عملی تجربہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا سوشل ازم جو نظریہ جوچے کا پرتو ہے یہ ا نتہائی سائنسی اور زندہ تابندہ رہنے والا سوشل ازم ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔