پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) چیئرپرسن ڈاکٹرمہدی حسن کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی میں طالب علموں کو ہراساں اور بلیک میل کے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ سے منسلک عناصر یونیورسٹی کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ویڈیوز کو طالب علموں کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان میں ‘خفیہ’ کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی کے کوئٹہ جانے والے ایک حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کو معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے احاطے میں تشویشناک حد تک کڑی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔ بظاہر تو یہ کام سیکیورٹی کے نام پر کیا جا رہا ہے مگر حالیہ شکایات سے پتہ چلتا ہے کہ نگرانی کا یہ نظام طالب علموں کو ہراساں کرنے کا آسان ترین ذریعہ بن سکتا ہے، جس کا خاص نشانہ عورتیں بنتی ہیں۔
ایچ آر سی پی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نگرانی کا نظام یونیورسٹی میں اخلاقیات کے اطلاق کی خود ساختہ ذمہ داری کو پورا کرنے اور طالب علموں کی صفوں میں ممکنہ سیاسی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، او ریہ کام مبینہ طور پر فرنئٹئیرکور کے ایماء پر ہوتا ہے جو یونیورسٹی میں مستقل طور پر تعینات ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں خفیہ کیمرے نصب کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ایچ آر سی پی اُن طالب علموں کی حمایت کا اظہارکرتا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ عمل اُن کی نجی زندگی میں مداخلت اور جبر کا ذریعہ ہے۔
ایچ آر سی پی کے خیال میں بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے اس معاملے کا ازخود نوٹس لینا قابلِ تحسین اقدام ہے۔ کمیشن کی یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی اپیل ہے کہ وہ اس میں ملوث لوگوں کی شاخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کرے۔