عزت دار چور اور پولیس
تحریر: جہانزیب دشتی
دی بلوچستان پوسٹ
آج سے کچھ وقت پہلے گوادر میں کوسٹ گارڈ نے تین آدمیوں کو پکڑا اور اُن سے نائن ایم ایم پستول اور مزید اسلحہ برآمد کیا، ان چوروں کے شناخت بھی ہوئی، مگر تربت میں یہ نظام کچھ الٹا ہے۔
تربت بلوچستان کا اک بہت ہی اہم شہر ہے جو سی پیک روڈ سے ملتا ہے اور یہ شہر بلوچستان کے لیئے ہر لحاظ سے اہم ہے تحلیم، کاروبار یا پھر اکونومی کی بات ہو تربت اپنا کردار ادا کرتاہے، مگر رواں مہینے کے شروع ہوتے ہی اس شہر میں بہت سے واقعات نے جنم لیا ہے، چاہے چوری ہو، ڈکیتی ہو یا پھر قتل۔ اس شہر میں کچھ ہی وقت میں یہ سب ہوا اور حکومت سب کچھ دیکھ کر بھی آنکھیں بند کررہی ہے، شاید حکومتِ بلوچستان تربت کو لاوارث چھوڑنا چاہتی ہے۔
عام آدمی بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ ہر طرف چوروں کا راج ہے، دن دہاڑے لوگوں کے قیمتی اشیاءچوری ہورہے ہیں، سڑکوں پر سائکل چوری ہورہے ہیں، لوگوں کی جان کی گارنٹی نہیں ہے، گلیوں میں تنہا چلنے میں لوگوں کو خوف محسوس ہوتا ہے لوگوں کی دکانیں محفوظ نہیں ہیں۔
مغرب کی آزان کے بعد تربت میں یہ سمجھ کر لوگ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ اب ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں کیونکہ مغرب کے بحد تربت میں کسی اور کی حکومت شروع ہوتی ہے اور عام لوگوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں، اگر پھر بھی کوئی جائے تو اپنی قیمتی اشیاء اور جان کا خود ذمہ دار ہیں۔
تربت پولیس نے ان سب واقعات کے بحد فوراً اپنی کارروائیاں شروع کردیں اور 8 بندوں اور کچھ اسلحہ پکڑ لیا یا برآمد کیا، یہ تو کوئی نہیں جانتا ہے یہ سب پکڑ تے ہی پولیس نے اک پریس کانفرنس کیا اور کہا کہ چور پکڑےگئے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر ابھی بھی لوگوں کو پولیس کے بیان میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی، شاید لوگوں کو پولیس پر کوئی اعتبار نہیں ہے، پولیس پر بےاعتباری کی وجہ بھی بنتی ہے کیونکہ چوروں کا ابھی تک کوئی شناخت نہیں ہوا ہے، پولیس کی جانب سے۔
برآمد کیئے ہوئے چیزوں کو سفید رنگ کے کپڑے میں چھپا دیا گیا، جیسے کوئی مردہ ہو، چوروں کے چہرے پر نقاب تو سمجھ میں آتا ہے مگر کوئی شناخت ہو تاکہ تربت کے عوام کا شک پولیس پر ختم ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔