بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کے رکن شمس بلوچ و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان ٹیکسٹ بک کی جانب سے پرائمری کے کتاب میں متنازعہ نصاب کے متعلق تعظات کا اظہار کیا۔
بی ایس او رہنماوں کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ مرکز سے صوبوں کو سونپ دیا گیا اور تعلیمی نصاب کی ترتیب کی ذمہ داری بھی صوبوں کے حوالے ہو چکی ہے۔ تعلیمی نصاب وہ بنیادی شے ہے کہ جس کے ذریعے بچے قومی شعور پاتے ہیں۔ اگر نصاب میں ہی تعصب و تفریق پروان چڑھائے جائیں تو اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ کی تازہ ترتیب کردہ اردو کی کتاب برائے جماعت چہارم دیکھ کر ہمیں انتہائی افسوس و دکھ ہوا جس میں قومی ایکتا پر متعصبانہ بنیادوں پر سنگین وار کیا گیا ہے۔ اردو کی کتاب برائے جماعت چہارم کے مصنفین نے انتہائی مکارانہ انداز میں بلوچ قوم کی براہوئی بولنے والی آبادی کو بلوچ قوم سے الگ کر کے انہیں ایک جدا قوم بتایا ہے اور قومی جغرافیہ کو بھی لسانی بنیادوں پر جدا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ بلوچ قوم کی تاریخ و تہذیب کے ساتھ سنگین زیادتی کے مترادف ہے۔ سرکاری سطح پر بلوچ براہوئی کی یہ شرمناک تقسیم قابل مذمت عمل ہے جسے قوم مسترد کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ کتاب کو دو مصنفین پروفیسر حمید اللہ جلالزئی اور جہاں آرا تبسم نے لکھا ہے جس کے بعد دو ریویو کمیٹیوں نے اسے پڑھ کر کلیئر بھی کیا ہے۔ جس میں پہلے مرحلے میں چھ ارکان پر مشتمل انٹرنل ریویو کمیٹی نے اسے پاس کیا اور اس کے بعد مزید چھ ارکان پر مشتمل پراونشل ریویو کمیٹی نے بھی اسے مستند قرار دے کر چھاپنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے یہی آشکار ہوتا ہے کہ یہ کمیٹیاں فقط پیسے بٹورنے اور بلوچ قوم کی روح کو مجروح کرنے کے کسی مذموم عزائم پر کارفرما ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ علاوہ ازیں نصاب میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کو صوبائی اور علاقائی زبانیں قرار دیا گیا ہے جو حقیقت کے منافی ہے اور اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نصاب میں صوبے میں پشتونوں کو اکثریت میں بتا کر برادر اقوام کے درمیان نفاق ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی ہے جوکہ قابلِ مذمت عمل ہے۔
بی ایس او رہنماوں کا کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ بلوچ قوم بلوچی زبان کے علاوہ براہوئی، جدگالی، سرائیکی، کھیترانی اور سندھی زبانیں بھی بولتی ہے مگر قومی شناخت بلوچ ہی ہے اور قومی اتحاد بلوچ کے نام سے قائم ہے۔ بلوچ قوم دشمن قوتیں عرصے سے لسانی بنیادوں پر قوم کو تقسیم کرنے کے مذموم عزائم پر کارفرما ہیں مگر انہیں ہمیشہ ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بار اس مکروہ سازش کو نصاب کے ذریعے بچوں کے معصوم ذہنوں میں بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے قوم قطعی پر قبول نہیں کرے گی اور ہمیشہ کی طرح انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے توسط سے اعلیٰ حکام تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ اس عمل سے بلوچستان کے ہر شہری اور بلوچ قوم کے ہرفرزند کے دل کو شدید ٹھیس پہنچی ہے لہٰذا اس سازش میں براہ راست ملوث مصنفین اور ریویو کمیٹیوں سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ قوم سے فوری معافی مانگیں اور بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ فوراً اس کتاب کو منسوخ کر کے بلوچ محقق، مؤرخین، ادبا اور دانش وروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر نیا نصاب اور نئی کتاب مرتب کریں۔
نیز ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبائی نصاب کی تشکیل کے بعد اب کم از کم نصابی مواد میں پچاس فیصد حصہ مقامی لکھاریوں کا ہونا چاہیے۔ نصاب میں بلوچستان کی علمی ادبی شخصیات، تاریخی مقامات سمیت مقامی شعرا اور ادیبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر رائج اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں موجود ہر قسم کے نفرت انگیز، انتہا پسندانہ اور متعصب مواد کو حذف کیا جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ چوتھی جماعت کی موجودہ کتاب کو متنازع مواد پر فوراً منسوخ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ایسوسی ایشنز سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب کا بائیکاٹ کریں اور نئی کتاب کی ترتیب تک طلبہ کے ساتھ مل کر احتجاج کے دائروں کو وسعت دیں تاکہ قوم دشمن قوتوں کی سازشوں کو شکست فاش دی جا سکے۔