تربت : سزائے موت کی مخالفت کا عالمی دن منایا گیا

125

تربت میں ایچ آر سی پی کی جانب  سے سزائے موت کی مخالفت کا عالمی دن منایاگیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اسپیشل ٹاسک فورس تربت مکران کی طرف سے 10اکتوبر 2019کو سزائے موت کی مخالفت کا عالمی دن منایاگیا ۔

اس سلسلے میں صبح 11بجے ایچ آر سی پی ٹاسک فورس کے ریجنل آفس تربت میں پہلے ایک اجلاس ہوا جس میں پروفیسر غنی پرواز، محمد طاہر،محمد کریم گچکی، منور علی رٹہ،شہناز شبیر اور دیگر شرکاءنے سزائے موت کی مخالفت میں اظہار خیال کیا۔

اجلاس میں ایچ آر سی پی کے مرد وخواتین کارکنان کے علاوہ نیشنل پارٹی کے ایک وفد نے ضلعی صدر محمد جان دشتی کی سربراہی میں شرکت کی، جن میں نیشنل پارٹی کے سابق ضلعی صدر محمد طاہر،چیئرمین حلیم ،رجب یاسین،گلز ار دوست، ساجد علی اور دیگر کارکنان شامل تھے۔

پروفیسر غنی پرواز ، محمد طاہر اور دیگر نے اجلاس کے شرکاءسے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ عالمی سطح پر سزائے موت کی مخالفت کا دن 2003سے منایا جارہا ہے ۔اس وقت دنیا کے 106ممالک میں سزائے موت پر مکمل پابندی ہے جن میں قابل زکر میکسیکو سٹی،آسٹریلیا، البانیہ، کنیڈا اور کمبوڈیا جیسے ممالک شامل ہیں،دنیا کے 8ممالک ایسے ہیں جہاں چھوٹے پیمانے کے جرائم میں سزائے موت نہیں دی جاتی ان کی تعداد 8ہے جن میں چلی، برازیل، اسرائیل، سلواڈور جیسے ممالک شامل ہیں ،برطانیہ سمیت یورپ کے28ممالک میں سزائے موت کا خاتمہ کردیاگیا ہے مگر امریکہ سمیت اقوام متحدہ کے کئی ممبر ممالک میں سزائے موت پر عمل کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ سزائے موت کے سبب دنیا میں جرائم کا ریشو کم نہیں ہوا اس لیئے اس سزا سے جو مقاصد تھے وہ ناکام ہوئے ، سزائے موت انسان کو فطری زندگی سے محروم کرنے کا زریعہ ہے اگر جرائم میں ملوث ایک انسان کو موت کی سزا دینے کے بجائے عمر قید یا کوئی اور سزا دی جائے تو ہوسکتا ہے کہ سزا مکمل ہونے کے بعد اپنی بقایا فطری عمر کے دوران انسان غلطیوں سے کچھ نا کچھ سیکھ جائے اور ان کی اصلاح ہوسکے ، انسان کو اصلاح کا موقع دینا انسانیت کے لیئے سزائے موت کی نسبت زیادہ مفید عمل ہے کیونکہ کئی بار ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سزائے موت پانے والا انسان بے گناہ ہوایسے میں ان کی زندگی کا خاتمہ ایک بدتر عمل ہے،دنیا کے بیشتر ممالک نے سزائے موت پر پابندی عائد کررکھی ہے اور اس کی جگہ عمر قید کی سزا دی جاتی ہے جو اچھی بات ہے اس سے انسان کو اپنی اصلاح اور معاشرے میں زمہ د اری کے ساتھ رہنے کا موقع مل جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں بدقسمتی سے اسسزا پر اب بھی عمل کیا جارہا ہے جو کسی طور پر مثبت عمل نہیں ہے ، پاکستان سمیت دنیا کے ان تمام ممالک کو جہاں اب بھی موت کی سزا کا قانون رائج ہے اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ جرائم میں ملوث افراد کی زندگیوں کے خاتمے کے بجائے انہیں سدھرنے اور اپنی اصلاح کا موقع دیا جاسکے۔

اجلاس کے بعد ایچ آر سی پی کی آفس کے سامنے سزائے موت کی مخالفت میں مظاہرہ کیاگیا اس میں سزائے موت کی مخالفت میں ایچ آر سی پی کے مرد و خواتین کارکنان نے پلے کارڈ ز اٹھا رکھے تھے ، اس دوران ایچ آر سی پی کے کارکن اسد بلوچ نے دو مختلف قرار داد پیش کیں جن کو اتفاق رائے سے منظور کیاگیا ۔

پہلی قرار داد میں کہاگیا کہ انسان ہر صورت میں قابل احترام ہے ان کی زندگی کا فطری موت سے ہٹ کر خاتمہ کرنا نامناسب ہے اگر وہ غلطیاں کرتا ہے تو مواقع ملنے سے اپنی غلطیوں کو دور کر کے اپنی اصلاح کرسکتا ہے ،سزائے موت سے جرائم کم نہیں ہوتے اس لیئے اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک کے ساتھ غیر ممبر ممالک کو فور ی طور پر موت کی سزا ختم کرنی چاہیے ۔

دوسری قرار داد میں کہاگیا کہ بے روزگاری کی وجہ سے اکثر اوقات چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں ، بے روزگار لوگ معاشی حالات اور تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر مختلف جرائم میں ملوث ہوتے ہیں یا جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ بن جاتے ہیں ۔دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصوں سے کیچ اور مکران سمیت صوبہ بلوچستان میں بھیک مانگنے، چوری کرنے اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے ، تربت میں اسی مہینے دو ڈکیتی کے واقعات نے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ڈاکوﺅں نے گھروں میں گھس کر خواتین کی کانیں کاٹ کر سونے نکالے اور گھر والوں پر تشدد کیا،اس لیئے حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت بے روزگاری کا فوری خاتمہ یقینی بناکر لوگوں کو روزگار کے مواقع دے اور جن لوگوں سے ان کے روز گار چھین کر انہیں بے روزگار بنایاگیا ہے ان کو اپنی پوسٹوں پر دوبارہ بحال کرے جبکہ تعلیم یافتہ بے روزگاروں کو نوکری دی جائے اور روزگار ملنے تک بے روزگاری الاﺅنس دیا جائے تاکہ ان کی گزر بسر ہوسکے۔