بلوچستان کوئلہ کان، 40 ہزار زندگیاں خطرات سے دوچار

329
File Photo

 بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 40 ہزار سے زائد مزدوروں کی زندگیاں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔

مائن ورکرز یا کان کنوں نے کام کے دوران درپیش خطرات کے خلاف صوبے بھر میں جمعرات 10 اکتوبر کو احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران ان کان کنوں نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی جس میں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں موجود ڈھائی ہزار سے زائد کانوں سے ہر سال بیس لاکھ ٹن سے زائد کوئلہ نکالا جاتاہے ۔ یہ کوئلہ نجی استعمال کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف کارخانوں اور توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا تا ہے۔

ان کانوں میں کام کرنے والے مزدور کہتے ہیں کہ حکومتی عدم توجہی کے باعث ان کی زندگیاں دن بدن کوئلے کی ان کانوں سے بھی تاریک ہوتی جا رہی ہیں۔

بلوچستان میں ہرسال کوئلہ کانوں میں حادثات کے باعث درجنوں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے یہ مزدورسوشل سکیورٹی سے بھی محروم ہیں اورکانوں میں حادثات سے متاثرہ اکثر مزدوروں کو حکومتی اعلانات کے باوجود کوئی مالی مدد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔

بلوچستان میں مائن ورکرز کی ایک نمائندہ تنظیم کے مقامی رہنماء سید ولی کہتے ہیں کہ حکومت با اثر کوئلہ مالکان کے مفادات کے خلاف جان بوجھ کر مزدوروں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”مائننگ کا شعبہ بلوچستان میں اس وقت انتہائی عدم توجہی کا شکار ہے۔ مائن ورکرز کی زندگیوں کوجوخطرات لاحق ہیں ان سے نمٹنے کے لیے کسی بھی سطح پر اب تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہاں مزدوروں کی زندگی کی حفاظت اور کام کے معیاری ماحول کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔‘‘

سید ولی نے مزید کہا کہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں اکثر حادثات میتھین گیس کے باعث پیش اتے ہیں: ”یہاں صوبے کے مختلف علاقوں میں جو کانیں واقع ہیں وہ بہت گہری ہیں۔ اس لیے میتھین گیس کی موجودگی میں جب وہاں برقی الات استعمال کیے جاتے ہیں تو بعض اوقات سپارک کی وجہ سے دھماکے ہوجاتے ہیں۔ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث اکثر اوقات کام میں مصروف مزدور کان کے اندر ہی پھنس جاتے ہیں۔ رواں سال بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران دو درجن سے زائد مائن ورکرز مائن حادثات کی وجہ سے دکی، سورینج اور دیگر علاقوں میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘

 خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے پچاس سالہ محمد مبین گزشتہ دس سالوں سے کوئٹہ کے قریب سورینج کے علاقے میں واقع کوئلہ کان میں کام کرتے ہیں۔ محمد مبین کا کہنا ہے کہ کوئلہ کانوں میں ہر مزدور پانچ سے آٹھ ہزار فٹ کی گہرائی میں نیچے جا کر کام کرتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”مجھے روزی کی تلاش اس شعبے کی جانب لے آئی ہے۔ اگر مجبور نہ ہوتا تو شاید کبھی یہ کام نہ کرتا۔ یہاں زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ حفاظتی انتظامات تو دور یہاں کان کنی کے لیے تکنیکی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ ہم سب اللہ کے سہارے کام کرتے ہیں۔ حکومت سے تو امیدیں دم توڑ چکی ہیں، مائن مالکان بھی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ہماری حفاظت ان کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔‘‘

محمد مبین کے بقول کوئلہ کانوں میں ٹھیکے داری کا نظام نافذ ہے جہاں ٹھیکہ دار اپنے منافع کے لیے بھی ناقص آلات استعمال کرتا ہے: ” کوئلہ کانوں کے اندر پہلے کیکر کی لکڑیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان لکڑیوں کی وجہ سے کان گرنے کے نتیجے میں مخصوص آواز سے مزدور آگاہ ہوجاتے اور انہیں واپس نکلنے کے لیے وقت مل جایا کرتا تھا۔ اب سفیدہ نامی لکڑیاں استعمال کی جاتی ہیں جو کہ نہ صرف بہت کمزور ہیں بلکہ حادثے کے وقت ان کی کوئی آواز بھی محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

بلوچستان کی ان کوئلہ کانوں میں مزدوروں کی صرف جانیں خطرات سے دوچار نہیں بلکہ یہاں ان محنت کشوں کو ان کی محنت کی مناسب اجرت بھی نہیں ملتی۔

پینتس سالہ حکمت اللہ کا تعلق خیبر پختونخؤا کے ضلع سوات کے ایک نواحی علاقے سے ہے۔ حکمت اللہ کہتے ہیں کہ دن بھر کام کے باوجود بھی وہ اتنا نہیں کما سکتے کہ اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”کانوں کے اندر کام کرنے والے مزدورں کی اجرتوں کا پیمانہ نکالے گئے کوئلے کی حساب سے مقرر کیا جاتا ہے۔ ایک مزدور کی اوسط دیہاڑی چھ سو سے آٹھ سو روپے تک بنتی ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں اس مہنگائی میں ایک مزدور اپنی ضرورت کس طرح پورا کرتا ہوگا۔ گھرکے آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کا واحد سہارا میں ہوں۔ بہت مشکل سے ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں۔ مزدوری سے بنیادی اخراجات پورے نہیں ہوسکتے اس لیے اکثر اوقات ادھار لے کر اپنی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔‘‘

حکمت اللہ کا کہنا تھا کہ مائن حادثات میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں تاہم ارباب اختیار مائن ورکرز کی جانوں کو درپیش خطرات دور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے۔

بلوچستان میں مائننگ کے شعبے کے ماہر عمر حیات کہتے ہیں کہ یہاں مائننگ سیکٹر اور اس سے متعلقہ قوانین میں بہت خامیاں ہیں جن پر نظر ثانی وقت کی اولین ضرورت ہے: ”جغرافیائی لحاظ سے اگر بات کی جائے تو یہاں مائننگ کا شعبہ ملک کے دیگر حصوں سے کافی مختلف ہے۔ یہاں کی کوئلہ کانیں بہت گہری ہیں اور ان کانوں میں موجود گیسز کی مقدار جانچنے کے لیے باقاعدہ ایک جامع میکنزم کی ضرورت ہے۔ جب تک ایک مؤثر سسٹم اس حوالےسے فعال نہیں بنایا جاتا ان کانوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھیں نامی گیس کی مقدار مانیٹر نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام کانوں میں ایک کنٹرول سسٹم نصب کیا جائے تاکہ گیس کی خطرناک حد تک مقدار جمع ہونے کی صورت میں  خطرے کی گھنٹیاں بجا کر کسی ممکنہ دھماکے سے قبل ہی کان کنوں کو کان سے باہرنکالا جا سکے۔‘‘