کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3739 دن مکمل ہوگئے۔ ژوب سے دلاور خان اچکزئی، نور محمد کاکڑ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان میں اپنی ماؤں، بہنوں کی انتہائی پرجوش اور عمل و کردار کو دیکھ کر یقینا من دوبالا ہوجاتا ہے کہ بلوچ مائیں اپنے گوشہ جگر کے بازیابی کے لیے راستے میں پتھر کو ٹھوکر مارینگے، پاکستان کی ظلم و ستم، خونی آپریشنوں کے حقائق میڈیا بلیک آؤٹ کے باعث سامنے نہیں آتی ہے، بلوچستان میں بکھری ہوئی آبادیوں پر تباہ کن بمباری کی گئی، فرزندوں کا لہو بہایا گیا، خواتین کو اپنی مٹی پر ننگے سر ہونا پڑا، دشمن تو غیر ہے لیکن بلوچ ماں بہن بیٹی کو گیدڑ کی کھال میں اُس بلوچ کے ہاتھوں اپنی عزت کو تار تار ہوتے دیکھ کر ضرور حیرانگی ہوئی جو چند پیسوں کی خاطر آج اپنی ماں کی عزت تار تار کرنے میں پاکستان کے لیے ڈیتھ اسکواڈ اور دلالی کا کام کررہا ہے لیکن اس ماں بہن بیٹی کے لیے اب وہ بلوچ نہیں رہا بلکہ ریاست کا ایجنٹ ہے۔
انہوں نے کہا ریاست پاکستان جو ڈرگ مافیا، انڈرورلڈ کے افزائش کا ذمہ دار ہے اور شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جو پاکستانی دہشت گردی کی شر سے محفوظ ہو، پوری دنیا اس ریاست کی وجہ سے پریشان ہے اور اس کا کردار پوری دنیا پر عیاں ہے لیکن اس کے باوجود یورپی یونین کا پاکستان کو امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی حیران کن اور خود کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے سابق وزراء بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے سربراہی میں ڈیتھ اسکواڈ گروپس تشکیل دیکر بلوچستان میں قتل عام کا لائسنس جاری کیا گیا، پاکستانی وزراء خود بلوچ کے قتل عام کا اقرار جرم کررہے ہیں ان معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جب موقف اور لائحہ عمل واضح ہو تو ہم خیال ڈھونڈے جاتے ہیں، چاہے منزل کتنی دور کیوں نہ ہو اور راستہ کتنا ہی کھٹن ہو اور ساتھی جتنے بھی کم ہوں سفر جاری رکھنا ہوگا۔