حب کے شہری اور دہرا عذاب
تحریر: اکبر آسکانی
دی بلوچستان پوسٹ
شومٸ قسمت کہ حب کے عوام دہرے عذاب میں مبتلا ہیں، برسات برسےتو سیلابی ریلوں، کیچڑ و گندگی اور دیگر طرح طرح کے مساٸل میں الجھ جاتے ہیں، موسم خشک ہو اور سورج کی کرنیں جلوہ افروز ہوں تو مٹی، دھول، گرد و غبار کے طوفان جیسے کہ سارا شہر کسی صحرا کے ریت کے طوفان میں ہو، بنیادی ضروریات کےمساٸل تو ویسے ہی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی نے مساٸلستان کے اس شہر کو شھر نا پرسان بنا دیاہے۔ ترقیاتی کام بھی زور و شور سے ہوتے ہیں، کروڑوں کے بجٹ خرچ ھوتے ھیں، سڑکیں بنتی ہیں پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھو جاتی ہیں۔
اگر پچھلے چند سالوں کے اس شھر میں بننے والے سڑکوں اور گلی محلوں کے روڈوں پر خرچ ھونے والی مجموعی بجٹ کا تخمینہ لگا یا جاۓ تو کم ازکم حب سے بیلہ تک کی مین آر سی ڈی ہائی وے دو رویہ ہوسکتی تھی، برسات میں ھونے والی تباہ کا ریوں کو قدرتی کہہ کر زبردستی فراٸض سے جان خلاصی کی کوشش تو کی جاتی ہے لیکن سال بارہ مہینے ابلتے ھوۓ گٹر اور نکاسی آب کی کوٸ پلاننگ نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ہرسال بننے والی یہ نٸ سڑکیں چار دن کی چاندنی کی طرح پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھوکر بڑے بڑے کھڈوں میں تبدیل ھوجاتے ہیں اور سرکاری بجٹ کے خرچ ھونے چند افسران اور ٹھیکیداروں کی فرائی وہیل انکم کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ھے جب تک برساتی پانی اور سیوریج لاٸنز کے نکاسی آب کا نظام بتر نہیں بنایا جاتا ان سڑکوں کی استر کاری کا شہریوں کو کوئی فاٸدہ نہیں۔
حب کی مین بازار اور روڑ کے بیچ کبھی لوہے کے جنگلے لگائے جاتے ھیں پھر کچھ ہی وقت میں ان جنگلوں کو اکھاڑ کر کباڑ کی آمدنی بنانے کے ساتھ فٹ پاتھوں کی تزٸین و آراٸش اور اسٹریٹ لاٸٹس کے لٸے پولوں کی مرمت کی جاتی ہے، جنکی روشنی مہینے بھر سے زیادہ کبھی دیرپا نہیں ھوتی، ڈینگی ملیریا اور دیگر وبائی امراض کو کنٹرول کرنے کی باتیں دال کے ساتھ تھڑکا لگانے کے علاوہ کچھ نہیں، جہاں گندگی و غلاظت کے ڈھیر ھوں جگہ جگہ سیورج کا پانی ندی نالوں کی طرح بہہ رہا ھو صفائی کا فقدان ھو دیگر اداروں کی کار کردگی بس اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں شہری عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں جبکہ صنعتکاروں کو سرمائے کے بدولت نا جاٸز اضافی کنیکشنز سمیت بلا ناغہ پانی کی فراہمی بھی اداروں کی کار کردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
کبھی ساکران کے مین روڈ کی چوڑائی کو مختصر کیا جاتاہے تو کبھی اسےکہیں دو رویہ اور کہیں سنگل بنایا جاتا ہے، صرف اس روڈ کو اتنی بار بنایا جا چکاہے کہ یہاں صرف دس پندرہ سال پہلے کے جتنے بھی مارکیٹس یا مکانات بناۓ گئے ھیں وہ سب زمین دوز ہو چکے ھیں۔
الہ آباد ٹاٶن کے مین ہولز اس بار بار بننے والی سڑکوں کی بدولت اس قدر گہرے ہوچکے ھیں کہ جیسے یہ مین ہولز تیل نکالنے کے کنوٸیں ھوں، اس شہر میں ترقیاتی کاموں کی فہرست تو انتہائی طویل ھے لیکن عوام کو کہیں کوئی بھی سہولیات میسر نہیں، گویا یہاں ترقیاتی کاموں کے نام پر صرف چند افراد کو نوازا جارھا ھے اور سڑکوں کے بننے ٹوٹنے اور دوبارہ بننے کے یہ نظارے نا اہلیت اور بدترین کرپٹ نظام کی انتہا ہے، جہاں نیتیں عوام کو ریلیف دینے کی ھو وہاں عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اور جیبوں کو ٹٹول ٹٹولتے ھوئے وصول کی گٸ مختلف ٹیکسسز کی مد میں ھونے والی رقوم کو یوں ری ساٸیکلنگ کے اس گندے نظام میں برباد نہیں کیا جاتا، سڑکیں بنتے ھوں یا دیگر ترقیاتی کاموں اور انکے ثمرات وفواٸد اب اس ظالمانہ کرپٹ نظام میں انتہائی مختصر ہو کر چند مہینے یا ہفتوں کی قلیل مدت تک باقی رہ جاتی ہیں_
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔