اللہ نذر سے بشیر زیب تک – مہرگان بلوچ

1189

اللہ نذر سے بشیر زیب تک

تحریر: مہرگان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے انقلابی حلقوں میں فاشسٹ رویئے اتنے پروان چڑھ چکے ہیں کہ یہاں زندہ انسانوں و کرداروں کے متعلق لکھنا یا شاعری میں اس کی کارناموں کی توصیف کرنا مناسب نہیں گردانا جاتا ہے لیکن میں اس رویئے کے بر خلاف کچھ قلم بند کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ کردار جنہوں نے مشکل و کھٹن حالات میں قومی آزادی کے جنگ کو ایسی شکل دی جس کو شکست دینا و ناکامی سے دو چار کرنا اب دشمن کیلے ممکن نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے شخصیات نے ایسے لازوال کر دار ادا کئے جس نے بعض معاشروں و قوموں کی قسمتوں کو بدل ڈالا تو لازم نہیں کہ ہم ان کرداروں کے بچھڑنے کا انتظار کریں اور رونے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیں۔

بی ایس او بلوچ قومی آزادی کے جنگ میں ایک ایسی تنظیم ہے اور تھی جس نے بے شمار ایسے کرداروں کو جنم دیا جنھوں ناممکن کو ممکن بنا کر بلوچستان کے سیاسی و مزاحمتی ماحول و ہیت کو بدل ڈالا، ہمیں یاد ہیکہ ہمیں سیاسی موقع پرستوں کی جانب سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ بھوکے پیٹ جنگ نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر ایک پر حوصلہ و باہمت رہبر آپ کی رہبری کرے تو بھوکے پیٹ و ننگے پاؤں آپکی قوم دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا جس کی واضع مثال آج بلوچ قوم کی ہے جو بے پناہ مشکلات و مسائل کے باوجود پاکستانی فوج کو شکست کے دہانے تک پہنچا چکا ہے وہ کرداروں جنھوں نے ناگفتہ حالات میں نہ کبھی وسائل کے زرائع نہ ہونے کا بہانہ بنا کر جنگ کو کمزور ہونے دیا نہ عالمی حالات کو۔

پر حوصلہ انسان بقول استاد قمبر کے قوت ارادی سے اپنے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے، جب اللہ نذر کے مثبت کردار وہ بلوچ قوم کی جانب سے اسکی پذیرائی و حوصلے سے گبھرا کر تحریک میں شامل ایک مہربان کی جانب سے اسکی تنظیم سے تعلق و بدنام زمانہ بڈھائی بند کردیا گیا تو اللہ نذر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اپنے تنظیم کو سنبھالتے ہوئے قومی آزادی کے جنگ کو جاری رکھا، ریاست کی بربریت دوستوں کی سازشیں، اللہ نذر کو کمزور نہ کرسکے، نہ اس نے اپنی تنظیم کو دوستوں کو منظم کرکے پاکستانی فوجی قبضہ گیریت کو چیلنج کرنے کے موقف کو جاری رکھا، ڈاکٹر اللہ نذر کی شہید استاداسلم و بشیر زیب سے ملکر اکثر مسلع تنظیموں کو ایک براس جیسی پلیٹ فارم فراہم کرنا ایک صلاحیت و فیصلہ ہے، جس نے بلوچ مزاحمتی جنگ میں نوجوان جنگجو سرمچاروں سے لیکر عام بلوچوں تک ایک پر امید فضا قائم کیا۔

طلباء سیاست میں طلباء کی رہنمائی بے شک پر آشوب دور میں مشکل کام نہیں لیکن ایک مسلح تنظیم کو سنبھالنا بلکہ دوسرے اتحادی و ہم خیال دوستوں کو سنبھالنا ایک تجربہ کار و پر عزم انسان کی نشانی ہے، جب استاد اسلم شہید کردیئے گئے تو بی ایل اے کو سنبھالنے اور استاد کے خیالات و طریقہ کار کو آگے بڑھانے کیلے کسی پر نظر پڑی تو وہ بی ایس او کے سابق چیئرمین بشیر زیب تھے، جس نے جن مشکل حالات میں تنظیم کی کمان سنبھالی، جس میں تنظیم کے سربراہ اور ایک امید شہید اسلم کی شہادت کا غم بلوچ قوم و بی ایل اے کے دوست برداشت کردہے تھے، دشمن نے استاد اسلم بلوچ کو شہید کرکے یہ یقین کرلیا تھا کہ اب بی ایل اے ختم ہو جائیگی لیکن بشیر زیب بلوچ کے تجربے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول نے دشمن کو کاری ضرب لگادی۔ دشمن استاد اسلم جیسے کردار کو ختم کرنے کے بعد قاتلوں میں انعامات بانٹ رہے تھے کہ یہان بی ایل اے و قوم کو سنبھالنے کے منصوبے بن رہے تھے کیونکہ استاد اسلم بلوچ کی شہادت کا سوگ منانے کے بجائے دشمن کے خلاف قومی جنگ کو تیز کرنے کی منصوبہ بندی ہی دشمن کیلے موت ثابت ہوگیا۔

یہ زمہ داری ایک ایسی انسان کیلے امتحان سی کم نہ تھا جو صرف ایک طلباء تنظیم کا چیئرمین رہا ہو لیکن پر عزم انسان ہی حالات کا رخ بدل دیتی ہے، قوت ارادی جب مظبوط ہو قائدانہ صلاحیت کے حامل انسان موجودہ مشکلات کو نہیں دیکھتا بلکہ مستقبل کیلئے منصوبہ سازی کرتا ہے، مشکلات کا سامنا کرنا اور ان کیلے حل تلاش کرنا ہی لیڈر کا کام ہوتا ہے جس کو بشیر زیب بلوچ نے اب تک جس حوصلے سے ادا کیا، یہی حوصلہ بلوچ قوم و نوجوانوں کو منزل کے حصول کیلئے پرامید حالات میں جینے دے رہا ہے، قومی آزادی کیلئے قومی مسلع تنظیموں کو یکجا رکھنا ڈاکٹر اللہ نذر و بشیر کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں لیکن ہم نوجوان پر امید ہیں، اللہ ان رھبروں کو لمبی عمر دے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بلوچ قوم کو منزل تک لیجاسکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔