بلوچ طلباء پر نوآبادیات کے اثرات – میرین زہری

291

بلوچ طلباء پر نوآبادیات کے اثرات

میرین زہری

دی بلوچستان پوسٹ

چائنا میں نیم نو آبادیاتی اور نیم جاگیر دارانہ نظام کے خلاف چا ئنا کی انقلابی تحریک دنیا بھر کی مظلوم و محکوم قوموں کی آزادی کے لئے مشعل راہ ہے۔ چائنا میں کامریڈ ماوزے تنگ کی سر براہی میں طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے پیش نظر 1949 ء میں چائنا جاپانی سامراج سے آخر کار آزاد ہوا۔ چائنا پر قبضے کے دوران جتنے لوگ تحریک آزادی کی راہ میں رکاوٹ تھے اور جتنے قابض کے وفادار رہے ۰۳ ہزار کے قریب ان سب کو غدا قرار دے کر قتل کر دیا گیا اور آزادی کے بعد جتنے غدار بچ کرزندہ تھے ان کو ہمیشہ کے لئے ملک بدر کر دیا گیا ۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ مظلوم اقوام کی کوئی بھی تحریک ہو ہمیشہ غداروں کے لئے سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔ تحریکی عمل یا جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی جہدو جہد کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو معاف کرنے کی کوئی گنجائش ہونی چاہئے۔

گھانا میں نیکروما کی سر براہی میں گھانا کو بر طانیہ کی زیر تسلط سے آزاد کرنے کے لئے جن لوگوں نے آزادی کی تحریک میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور استحصالی نظام کے چوکھٹ پر سجدہ ریز تھے ان کو اپنی مٹی کا غدار قرار دیکر سزائیں دی گئیں۔

کبوشیا (kaboshia) خاندان گھانا میں بر طانوی سامراج کے وفادار تھے، انقلاب کی مخالفت کرتے تھے لوگوں کو انقلابی عمل سے دور رکھنے کی کو ششیں کرتے تھے اور گھانا کی آزادی کی تحریک کو ملک دشمن اور خانہ جنگی سے تعبیر کرتے تھے ۔ایسے غداروں کو انقلابیوں نے خاک سے در بدر کر دیا، ان کے تمام جائیداد یں اپنے قبضے میں لے لیئے گئے۔

اسی طرح ویتنام میں امریکی قبضے کے دوران جو لوگ امریکی یلغار سے خوش تھے اور امریکیوں کی نوابادیت کو قبول کرکے ہر طرح کے تعاون و مدد کر تے تھے۔ اپنے ہی قوم کے غدار تھے آزادی کی جدو جہد کرنے والوں کو امریکہ کے ہاتھوں سے اغوا کرکے مرواتے تھے تو مٹی کے وفادار انقلابیوں نے ان کو خاک سے غداری کے نام پر قتل کر دیا۔ ویتنام میں تقریباً دس ہزار قبائلی چیف غدار مارے گئے۔

غدار اور غداری کا تعرف الگ ہی صحیح پر معیار ایک ہی سا ہوتا ہے آج ہمارے یہاں نوآبادیاتی نظام نے ہمیں اس قدر مفلوج کر دیا ہے کہ ہم ذہن عقل و شعور سے عاری ہوکر اپنی بدقسمتی پر تو رونا جانتے ہیں پر سچ بات کو ماننے اور اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں، اگر اس سچ سے واقف ہوں بھی تو ڈر اور خوف سے چپ سادھ لیتے ہیں، ہم کس سے غداری کررہے ہیں، خود سے؟ اپنے اندر جھانک کر ہم خود سے یہ سوال کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہم آخر کس قدر اس نوآبادیاتی نظام کے بھینٹ چڑھ کر اس سے مطمئن ہوگئے ہیں، کیا ہم نے اپنے ضمیر سے کبھی پوچھا یے کہ ہم صحیح رستے پر ہیں کہ نہیں؟

خیربخش مری کہتے ہیں ہم کیوں نو آبادیاتی نظام کو اپنا مقدر سمجھ لیں؟ کیوں ہم اپنی ہی دھرتی پر بے بسی و دربدری کی زندگی گذاریں؟ ایک انسانی عزت نفس اس حد تک کیسے مجروح ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اپنا آقا سمجھ لے؟ ایک انسان کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ آقا بن بیٹھے؟ کیا یہ کوئی خدائی اختیار ہے؟ یا انسانی عزت نفس کی پستی ہے؟

نوابادیات کا شکار ہوکر آج ہمارے مستقبل۔کے معمار کے دعوےدار طلبہ، طلباء تنظیموں کے نام۔پر چھوٹے چھوٹے گروہ بنائے ایک دوسرے کے ٹانگیں کھینچ رہے ہیں یہی طلباء کل کی مُستقبل ہوکر نوابادیت کا اس قدر شکار ہوئے ہیں کہ وہ خود کسی نتیجے سے پہلے آقا کے ہاں سرتسلیم کرنے کو بے چین ہیں، اپنی تعلیم نظام کو بچانے کے بجائے اپسی ربخش کو تقویت دے کر نوآباد کے نظام کی پیروی کررہے ہیں اور آپسی اختلاف میں اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ شعور انکے اندر انتقال کرکے تعفن زدہ بن گیا ہے مختلف شکلوں میں نواباد کار کی جی حضوری کے لئے ریس لگا کر اپنے ہی شعور گاہوں کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کردیا ہے اپنے مستقبل کو یوں دفن کرتے انہیں ملال بھی نہیں ہوتا-

موجودہ حالات میں جیسے ہمارے تعلیم نظام کو ہمارے اپنے ہی ہاتھوں سے جس تباہی کی جانب لے جایا جارہا ہے اس پر کئی لوگوں نے لکھا پڑھا اور بتایا ہے اور اگے بھی قلم کی سیاہی اس عمل پر ضائع کردیئے جائیں گے۔ آج کے نوجوان کو سوچنا چاہیئے کہ اسکا کل کیا بننے جارہا ہے اسے نواباد کار کے شکنجے میں رہ کر وقتی مفادات کے لئے اپنے اور اپنے قوم کے مستقبل، کے ساتھ کھلواڑ کرکے کل غدار بننے کے بجائے اپسی اتفاق عمل اور شعور کی روشنی کو پروان چڑھا کر اپنے بہتر مستقبل کو قومی کاز کے استعمال میں لا کر مزید بہتر بنانا چاہئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔