بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے سابقہ انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو تین سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چار اکتوبر 2016کی صبح بلوچستان ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ سے فورسز نے ایک آپریشن کے دوران اسکی بیوی زرینہ بلوچ سمیت گاوں کے کئی افراد کے سامنے درجن بھر بے گناہ بلوچوں کے ہمراہ آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پاوں باندھ کر اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگی ایک المیہ کی شکل اختیار کرکے بلوچ نسل کشی کے مترادف ہے۔ زندگی کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ جبری گمشدگیوں کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔سیاسی کارکن اور اسٹوڈنٹ رہنماء شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی بھی انہی پالیسیوں کا حصہ ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے ان کی بہن سیما بلوچ کی جدوجہد مثالی ہے انہوں نے اپنے بھائی کی بازیابی کی خاطر اور مجرم ہونے کی صورت میں عدالت میں پیش کرنے اور منظر عام پر لانے کیلئے تمام دروازے کھٹکھٹائے اور تمام پرامن طریقے آزمائے لیکن ریاستی ادارے اس کے باوجود شبیر بلوچ کو نہ منظر پر لائے اور نہ فیملی کو اس حوالے سے کوئی پیشن گوئی کی گئی ۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو تین سال کا عرصہ مکمل ہونے پر سوشل میڈیا میں آن لائن کمپئین چلائی جائے گی تمام انسان دوست افراد اس کمپئین میں حصہ لے کر اپنا فرض نبھائے ۔