ریت کی دیوار کو، ایک دھکا اور دو – ظفر رند

282

ریت کی دیوار کو، ایک دھکا اور دو

 تحریر : ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچستان کے میڈیکل کے اسٹوڈنٹس سڑکوں پر آنے پہ مجبور ہوگئے. اس بات سے تو ہر ایک واقف ہیکہ کوئٹہ میں ہر وقت پریس کلب کے سامنے بلوچ اسٹوڈنٹس اپنی آہ و فریادیں لیکر بیٹھے رہتے ہیں مگر انکو انصاف نہیں ملتا۔ ان سے کبھی وقت مانگ کر دھوکا دیا جاتا ہے یا پھر انکے کیس کو کورٹ میں لے جا کر وقتی طور پر احتجاج ختم کرواتے ہیں۔ اور کچھ وقت بعد ان سے یہ کہاجاتا ہے کہ آپ لوگ کیس ہار گئے ہیں۔ طلباء کو مایوس کرکے واپس اپنے علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ مگر پھر وہی طلباء ہمت کے ساتھ اکیڈمی جوائن کرتے ہیں اور اگلے ٹیسٹ کی تیاری کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پورا سال نہ وہ صحیح سے اپنی نیند پوری کرسکتے ہیں اور نہ انکو کھانے پینے کی صحیح فرصت ملتی ہے۔ پھر ٹیسٹ دینے کے بعد وہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جو پچھلے سال انکے ساتھ ہوا تھا۔

وہ کتنے خواب سجاتے ہیں اپنے دلوں میں اور انکے کتنی خواہشیں ہوتی ہیں اپنی خوبصورت مستقبل کے لیے مگر انکے خواب ایسے توڑ دیے جاتے ہیں جیسا کہ انکو یہ حق نہیں ہیکہ وہ اس فیلڈ میں آگے جائیں. ہر جگہ بیٹھ کر ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کے بلوچ جاہل ہیں، تعلیم حاصل نہیں کرتے. کیا یہ ہماری جہالت ہیکہ ہم اتنے دور کوئٹہ پہنچ جاتے ہیں جب ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو ہم اپنا حق مانگنے کے لیے روڈوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم بلوچ اس سے بڑھ کر کیا ثبوت دیں کہ ہم علم کے بھوکے ہیں۔ ہم پڑھنا چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے راستے بند کیے جاتے ہیں اور ہمیں بزور طاقت اداروں سے باہر کیا جاتا ہے.

ایک بلوچ لڑکی کو بہت مشکلوں کے بعد یہ اجازت مل جاتی ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر باہر کسی بڑے شہر میں پڑھنے جائے مگر اتنے مشکلات کے بعد بھی جب وہ آتے ہیں تو وہ سڑکوں کی زینت بن جاتی ہیں.

بلوچستان کے طالب علم اپنی فریادیں لیکر کس کے پاس جائیں؟ کون انہیں انصاف دلائیگا؟ کیا ہمیشہ ہماری مائیں بہنیں اسی طرح روڑوں کی ذینت بنینگے؟ قوم کے نمائندے بہت بڑی باتیں تو کرتے ہیں اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا یہ بھی تعلیمی ایمرجنسی میں شمار ہے؟ کیوں ان اسٹوڈنٹس کے حق میں نہیں بولتے جو پچھلے ایک ہفتے سے روڈوں پر انصاف مانگنے کے لیئے بیٹھے ہیں؟

بلوچ اسٹوڈنٹس کو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے منظم ہونے کی ضرورت ہے دوسرے سے امیدیں لگانا پھر وہی غلطی کو دہرانا ہے۔ اب مزید اس دھوکے میں اسٹوڈنٹس کو نہیں رہنا ہے بلکہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور نہ انصافی کے لیے خود لڑنا ہوگا۔ اگر نوجوانوں نے اپنے زمہ داریوں کو محسوس نہیں کیا اور خاموش رہے تو یاد رکھیں کہ اس ظلم و ناانصافی میں صرف وہ طلباء شکار نہیں ہونگے جو روڈوں پر بیٹھے ہیں بلکہ ہم سب اسی جبر اور نا انصافی کا شکار ہونگے۔ تو ضروت ہیکہ نوجوان منظم ہوکر اپنے مستقبل کےلیے بہتر حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ ان ریت سے بنے ہوئے ہوئے دیواروں کو شکست دے سکیں اور اپنے حقوق حاصل کر لیں۔
اتحاد اور اتفاق وقت کی اہم ضرورت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔