دو نہیں ایک پاکستان؟
تحریر: منظور پشتین
دی بلوچستان پوسٹ
کیا واقعی دو نہیں ایک پاکستان ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے اس ملک میں انصاف کا معیار اور مختلف اقوام اور طبقات کے ساتھ ریاست اور اس کے اداروں کا برتاؤ دیکھنا ہوگا۔
نعرے کی حد تک ایک پاکستان ہم نے تب بھی دیکھا تھا جب وزیرستان میں ایک بڑی انسانی آبادی کی تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کو فوجی اور سویلین حکمرانوں نے اپنے میڈیا میں ”کلین اپ آف وزیرستان” کا نام دیا تھا۔ نعرے کی حد تک تو پاکستان ایک ہی ہے جس میں قوم اور زبان کے نام پر سیاست کرنے پر پابندی ہے لیکن کشمیر کا ذکر آتے ہی ریاست کی زبان پر پشتون کا نام آنا شروع ہوجاتا ہے۔ کشمیر کو ‘فتح’ کرنے کیلئے پھر پشتون پشتون کرنا اور پشتونوں کو استعمال کرنا حب الوطنی کا ایک بلند معیار بن جاتا ہے۔ پشتونوں کو جنگ اور تشدد کا ایندھن بنانا ریاست کی ایک منظم روایتی پالیسی رہی ہے۔
پچھلے پندرہ سالوں میں ہزاروں پشتون اس جنگ میں قتل ہوئے جو پشتونوں کی کبھی تھی ہی نہیں لیکن ان ستر ہزار بدقسمت پشتونوں میں سے ایک کو بھی اس ‘ایک پاکستان’ میں وہ اہمیت نہیں ملی جو اہمیت پنجاب میں پولیس کے زیر حراست تشدد سے ہلاک ہونیوالے ایک ذہنی مریض نوجوان صلاح الدین کو ملی۔ اس واقعے کو سرکار اور میڈیا نے جس بڑے پیمانے پر اٹھایا وہ نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ ہماری یہ دعا بھی ہے کہ صلاح الدین کو فوری انصاف دلانے کی تمام کوششیں کامیاب ہوں۔
اس سے پہلے زینب اور ساہیوال کے ذیشان کو بھی میڈیا نے اسی طرح کی مثالی کوریج دی تھی اور ریاست نے انصاف بھی کیا تھا جوکہ ایک اچھی بات ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی اچھی خبریں ہمیں صرف اور صرف پنجاب کے حوالے سے ہی ملتی ہیں۔ جس قوم سے میں تعلق رکھتا ہوں اس کے ہزاروں شہدا میں سے ایک بھی اس ریاستی انصاف اور میڈیا کوریج کا مستحق نہیں ٹھہرا جو پنجاب کے صلاح الدین، زینب اورذیشان کو نصیب ہوئے۔ ان شہداء میں ہماری پشتون قوم کے سینکڑوں رہنما شامل تھے لیکن ان کے نام تک کا ذکر سرکاری بیانیے اور مین سٹریم میڈیا میں سننے کو نہیں ملا۔ میں زیادہ دور کی بات نہیں کروں گا ابھی گزشتہ ڈیڑھ سال کے چند واقعات کا حوالہ دے کر کچھ سوالات پوچھوں گا۔
یاد رہے کہ یہ وہ عرصہ ہے جس میں ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف اپنی ساری فوجی کارروائیاں مکمل کرکے یہ دعویٰ کیا کہ اب جنگ زدہ علاقوں کو ترقی دینا اور انصاف دلانا اس کی ترجیحات ہیں۔ میں بات نقیب اللہ محسود کی ماورائے عدالت قتل سے شروع کروں گا جس کے خلاف پشتونوں نے ایک تاریخی احتجاج ریکارڈ کیا لیکن پھر بھی کوئی انصاف نہیں ہوسکا۔ نقیب کا قاتل راؤ انوار آج بھی آزاد پِھر رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ راؤ انوار آصف علی زرداری کا بچہ ہے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاست زرداری کو پکڑ کر جیل میں ڈال سکتی ہے جبکہ راؤ انوار کو نہیں؟
پچھلے سال ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ناصر حسین بھی جیل میں تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوئے لیکن ان کے متعلق پاکستانی میڈ یا میں ایک سطر تک دیکھنے کو نہیں ملی انہیں انصاف دلانا تو دور کی بات ہے۔ صوابی میں انوارالحق نامی پشتون بھی ایسے ہی ایک تشدد کاشکار بنے لیکن پورا پاکستان مکمل طور پر خاموش رہا۔ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرنیوالے پروفیسر ارمان لونی کو پولیس نے قتل کیا دو مہینے تک جس کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جارہی تھی جبکہ (ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ) ایف آئی آر کے مطالبے کیلئے جتنے بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ان سب کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئی اور کئی پرامن مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اے این پی کے صوبائی ترجمان ہارون بلور کو دیگر بائیس لوگوں سمیت یکہ توت پشاور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران قتل کیا گیا لیکن ان کے قاتلوں کی گرفتاری یا اس حوالے سے تحقیقات کی بات تک ریاست کے عہدیداروں سے کسی نے نہیں سنی۔ ایک پشتون پولیس آفیسر طاہر دواڑ کو محفوظ ترین شہر اسلام آباد سے اغوا کیا گیا۔ سرکار اور میڈیا نے اس کو ایک معمولی واقعے کے طور پر نظر انداز کیا۔ پھر ان کی مسخ شدہ لاش افغانستان سے ملی۔ وزیراعظم عمران خان نے بذات خود فوری انصاف کا وعدہ کیا مگرفوری انصاف تو دور کی بات آج تک اس کے لئے ایک برائے نام کمیٹی کا قیام بھی ممکن نہیں ہوسکا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ کمر میں پیش آنے والے دلخراش واقعے میں تو الٹا ان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا جن پر فوج نے براہ راست گولیاں چلائیں، یہی نہیں بلکہ ریاست کی سوشل میڈیا ٹیموں سے لیکر حکومتی وزراء تک نے وہ ساری گالیاں اور نازیبا الفاظ خڑ کمر کے واقعے کے مقتولین اور متاثرین کیلئے استعمال کیے جو انگریزی، اردو اور پاکستان میں بولی جانے والی قومی زبانوں میں ملتے ہیں۔
اسی طرح ابھی دو مہینے پہلے اے این پی پشاور کے صدر سرتاج خان کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں قتل کیا گیا۔ اس حوالے سے کوئی ایک سرکاری بیان یا کوئی ٹی وی ٹاک شو ہماری نظر سے نہیں گزرا ہے۔ ایک نہیں، دو پاکستان محض ایک سرکاری نعرے سے بڑھ کرکچھ بھی نہیں۔ حقیقت میں دو پاکستان ہیں اور یہ ریاست نے خود بنائے ہیں۔
میں نے جن واقعات کا ذکر کیا ان کی حیثیت مشتِ نمونہ از خروارے کی ہے۔ پشتونوں کی زندگیوں کو اعداد و شمار میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اتنوں کو قتل کیا گیا اور اتنے دھماکوں میں جاں بحق ہوگئے سے زیادہ پشتونوں کی نسل کشی پر مکمل خاموشی ایک انتہائی منظم پالیسی کا حصہ ہے۔
ہم (پشتون تحفظ موومنٹ) صرف یہ سوال اٹھاتے ہوئے گناہگار ٹھہرے کہ پچھلے پندرہ سالوں کے آپریشنوں کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیرستان اب کلیئر ہوگیا ہے لیکن اسی وزیرستان میں آئے روز لینڈ مائنز سے معصوم بچے یا زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور یا ہمیشہ کیلئے معذور بن جاتے ہیں۔ ان لینڈ مائنز کو صاف کیا جائے اور پشتون بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ریاست نے ہمارے اس بنیادی مطالبے کو انسانی حقوق کے لحاظ سے بھی قابلِ غور نہیں سمجھا۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ پچھلے پندرہ سالوں میں ہمارے جن ہزاروں پشتونوں کو اٹھایا گیا انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ ریاست کی طرف سے جواب ملا ”جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے”۔ہم نے درخواست کی کہ ایک حقائق اور مفاہمتی کمیشن بنایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ جواب میں کہا گیا، “تمھارا وقت ختم ہوچکا ہے”۔ٹائم از اپ کی دھمکی دینے کے فورا بعد خڑ کمر کا واقعہ پیش آتا ہے۔ ہمارے دو ساتھی علی وزیر اور محسن داوڑ، جو جنوبی اور شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے ممبر بنے ہیں، کو جعلی مقدمات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا، ان کے ساتھ ہری پور جیل میں جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا گیا جبکہ عدالت پیشی کیلئے تاریخ پر تاریخ دیتی رہی۔
یہاں پر دو نہیں ایک پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ مرکزی پنجاب اور مرکزی سندھ سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈز تو جاری کیے جاتے ہیں لیکن وزیرستان کے ان دو منتخب اور مقبول ممبران کو اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ جب سے پشتونوں کیلئے جینے کا حق مانگنے کے جرم میں علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت ہمارے درجنوں ساتھی کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے تب سے وزیرستان سے لیکر باجوڑ تک طالبان کو منظم کرنے اور ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوںکا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ پشتون وطن کو دہشت گردوں کی مدد سے قبضہ کرنے کی پالیسی ہمارے اتنے بڑے احتجاج کے بعد بھی نہیں بدلی ہے۔
پی ٹی ایم اور پشتون قوم پرست جماعتوں کو دبانے اور دہشت گردوں کو منظم کرانے کی پالیسی ہمارے وطن میں نظر آنے والے پاکستان کی و اضح شکل ہے۔ ہمارے حصے کی ریاست جنگ، تشدد اور خوف و ہراس کے علاوہ کوئی اور زبان بولتی ہوئی کبھی نظر نہیں آئی ہے۔ ہم ریاست کی اس شکل کے خلاف اٹھے ہیں اور ہمارا مطالبہ انتہائی سادہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ریاست پشتون وطن میں جنگ کی ایک فیکٹری کے طور پر کام نہ کرے۔
ہم آج بھی اپنے اس اصولی موقف پر قائم ہیں کہ ملک کے باقاعدہ قانون کے علاوہ ہم کسی اور ضابطے کے تحت رہنے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ ہم نہ تو طالبان کو پشتون قوم کے نمائندے سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی کسی قسم کی حکمرانی تسلیم کرتے ہیں۔ دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشتونوں پر جو قیامتیں گزریں ہیں ان کا حساب کتاب ہم لازمی رکھیں گے۔ پشتون وطن میں امن کے قیام تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم ایک فیصلہ کن احتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔