بلوچستان، شعبہ تعلیم مسائلستان – گہرام اسلم بلوچ

231

بلوچستان، شعبہ تعلیم مسائلستان

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ روز جامعہ بلوچستان کوئٹہ کے سٹی کیمپس میں تمام طلبا تنظیموں کا بلوچستان یونیورسٹی سمیت بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں کے مسائل کے حوالے سے مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جسمیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے دونوں دھڑوں، پشتون اسٹوڈنٹس کے طلبا تنظیمیں اور دیگر محدود طلبا تنظیمیں شامل تھیں۔ اجلاس کا مقصد جامعہ بلوچستان میں اکیڈمک و دیگر انتظامی بدعنوانی کے خلاف صوبائی سطح پر قائم الائنس کی اجلاس کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مداخلت اور ثبوتاژ کرنا اور کیمپس کے اندر انہیں اجلاس کرانے سے روکنے کے رد عمل میں طلبا تنظیموں کا شدید ردعمل تھا، آل بلوچستان طلبا الائنس کے پالیسی بیان کے مطابق ملک بھر میں کیمپس پالیٹکس اور طلبا یونینز پر غیر اعلانیہ پابندی اور ملکی آئین کے آرٹیکل 19کے تحت Freedom of Expression پر قدغن کے خلاف طلبا تحریک چلانے کا اعلان کردیا گیا۔ اگر قوم و ملک کے نوجوان کے سوال کرنے اور سوچنے پہ پابندی ہوگا تو آگے چل کر نوجوان کی یہ نسل کیسے قوم و ملک کی رہبری کرسکتا ہے۔ اسوقت طلبا تنظیموں کا انتہائی سخت گیر موقف سامنے آیا، جسمیں انکا کہانا ہے کہ جلد ٹوئیٹر پہ (ہیش ٹیگ) مہم چلائیں گیں۔

واضح رہے بلوچستان یونیورسٹی کا یہ مسئلہ گذشتہ تین سال سے زائد عرصے سے چلتا آرہا ہے، کئی بار کیمپس کے اندر تنظیموں کے اسٹینڈ پر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے گرفتاری اور تمام طلبا تنظیموں کے سرکردہ رہنماوں کو گرفتار کر کے اب بھی انکے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ اور کچھ رہنما اب بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اسوقت انکے چند مطالبات میں سے چند یہ ہیں جسمیں کہا جا رہا ہے کہ طلبا کے خلاف کیسز کو واپس لیا جائے اور طلبا رہنماوں کی کیمپس میں داخلے پہ پابندی، بے تحاشہ فیسوں میں اضافگی، فورسز کی موجودگی، جسمیں طلبا ذہنی خوف میں مبتلا ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی ناروا سلوک اور انا کے خلاف طلبا تنظیمٰیں مسلسل اپنی اصولی موقف پر قائم ہیں۔

گذشتہ روز کے اجلاس کو انتظامیہ کی جانب سے منتشر کرنے کے ردعمل میں احتجاج زوروں پر ہے۔ اس حوالے سے ہم مختلف تظیموں کے سربراہاں سے انکا موقف جاننے کی کوشش کی انکا کہنا ہے کہ انتظامیہ جان بوجھ کر تعلیمی اداروں میں پر امن تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کی طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ماضی میں بھی تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز اور تنظیوں کا ایک کلیدی کردار رہا ہے اور تعلیمی اداروں میں ایک دوستانہ ماحول پیدا کرنے کا ہر اول دستے کا کردار رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں تعلیمی مسائل کے حواالے سے ہر آئے دن طلبا احتجاج پہ ہیں، اس سے قبل بلوچستان کے تمام میڈیکل کالجز کے طلبا مہینوں تک کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کا انوکھا طریقہ اختیار کرتے ہوئے کیمپ میں رضاکار ڈاکٹرز ٹیچرز نے کلاس لیے ہیں۔ صوبے کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے متاثر نظر آرہے ہیں مگر طلبا زیادہ منظم انداز میں اپنی آواز کو پر امن احتجاج کے ذریعے اُٹھا رہے ہیں۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد ہائر ایجوکیشن صوبوں کے ماتحت ہونا چاہیئے مگر بلوچستان میں اب بھی یونیورسٹی اور دیگر ادارے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دینے تھے اب بھی مرکز کے ریموٹ سے چل رہے ہیں، بلوچستان یونیورسٹی کے اب بھی گورنر بطور چانسلر ہیں۔ اس سے قبل بھی بلوچستان کے واحد میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج جن کے فارن سیٹوں کو خالی ہونے کی صورت 2015 میں self finances کے خلاف احتجاج کرنے کے بعد اب پھر سے فارن سیٹوں کو ڈویژنل میرٹ کے نشستوں کو اوپن میرٹ کو الاٹ کرنا پسماندہ صوبے کے محنتی طلبا کیساتھ ایک متعصبانہ سوچ ہے۔ ہر روز نئے حربے سے طلبا کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے میں ایک نیا مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے، جس سے طلبا کا ذہن منتشر ہوتا ہے، بجائے اپنے اکیڈمک سرگرمیاں جاری رکھیں انہیں احتجاج کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

انہی احتجاجوں اور رویوں کی وجہ سے بلوچستان کے طلبا مجبور ہوکر یا تو تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوں گے یہ ناراض نوجوان ہوں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ملک میں طلبا یونین پہ پابندی نہیں تھی تو وہ تعلیمی اداروں میں ایک متحرک رول ادا کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ کر لبرل سوچ کو آگے لے جانے کے لیئے روشن فکری، لٹریچر، آرٹ اور میوزک کی تعلیمات کے ذریعے سماج میں ذہنی پسماندگی اور مذہبی انتہا پسندی کی سوچ جیسی گروہوں کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ جب 1984 سے طلبا یونین پہ پابندی لگائی گئی آج تک انکی Spaceکی وجہ سے مذہبی جنونیت ، عدم برداشت تیزی کیساتھ معاشرے کو اپنی لپیٹ میں میں لے رہی ہے۔ جنکے منفی اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ اگر حکومت اور سیاست اسی کا نام ہے کہ کسی بھی مسئلے کو سُلجھانے کے لیئے دوسرا مسئلہ کھڑا کرنا تو بہت بڑی غلطی ثابت ہوگی۔ کسی بھی ویلفئرریاست ایک شفیق ماں اور مہربان والد کی حیثیت رکھتا ہے، اگر انکے بچے یہ محسوس کرنے لگے کہ ہم والدین کی شفقت سے محروم ہوتے جارہے ہیں تو وہ ضرور کوئی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگا اور اسی طرح ایک منتشر سماج میں تبدیل ہوگا، بلوچستان کے تعلیمی مسائل کا مثال بھی اسی طرح سے دیا جاتا ہے، سالہا سال طلبا احتجاج پہ ہیں، انکے احتجاج کو ثبوتاژ کیا جاتا ہے۔

اگر آج سے ریاست، سیاست اور حکومت یہ عہد کریں کہ مشترکہ مفاد عامہ کے لیئے ہمیں ایک ہی صفحے پہ ہونا ہوگا تو مجھے نہیں لگتا کہ بلوچستان جیسے صوبے کے مسائل حل نہ ہوں مگر المیہ یہی ہے کہ ہم جانتے بھی ہیں کسی ادارے کے سربراہ کی وجہ سے انکے منتظمین کی وجہ سے ادارے میں خدشات ظاہر ہو رہے ہیں مگر پھر بھی ہم اپنے حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے انکے جائز و ناجائز عمل کو سپورٹ کرتے ہیں، یہی مثال بلوچستان یونیورسٹی کے انتظامیہ اور طلبا کے مابین Conflictکی سبب بنتی آرہی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی مدتوں سے مالی و انتظامی بحران کا شکار ہے۔ حال ہی میں بی بی سی اردو کی بلوچستان یونیورسیٹی کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق اسوقت ادارے کے ملازمین کی تنخواہ تک بڑی مشکل سے یونیورسٹی ادا کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے جامعہ بلوچستان کے ذمہ دار، مالی امور کے سربراہ جیئند خان جمالدینی بلوچ نے بھی اپنا موقف بتاتے ہوئے یونیورسٹی کی مالی بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ (ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان) ایچ، ای، سی کی جانب سے بلوچستان یونیورسیٹی کی گرانٹ کی کٹوتی کی وجہ سے یونیورسٹی شدید مالی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ HEC کی جانب سے اچانک یونیورسٹی کی بجٹ کم کرنا چھوٹے صوبے کے لیے بہت بڑی زیادتی ہے۔ دوسری جانب موجودہ وائس چانسلر کی انتظامی امور کو چلانے میں طلبا پچھلے تین سالوں سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور یہی نشاندہی کرتے آرہے ہیں۔ مگر کسی نے طلبا کے تحفظات کو وزن سے نہیں سُنا۔ وائس چانسلر کی مسلسل طرفداری کرنے پر جامعہ بلوچستان کے مسائل اس نہج پر پہنچ چُکے ہیں۔ گذشتہ سال سے قبل بلوچستان یونیورسٹی میں سمسٹر نظام رائج نہیں تھا۔ جب سے بلوچستان یونیورسٹی میں سمسٹر نظام متعارف کرایا گیا، اسی دوران فیسوں میں سو فیصد سے زائد اضافہ اور ہاسٹل سمیت دیگر امتحانی فیسوں میں اضافے سے بلوچستان کے دور دراز اضلاع سے تعلق رکھنے والے غریب والدین پر بوجھ بڑھ گئی، شدید پریشانی کے عالم میں مجبور ہوکر انکے بیٹے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ صوبے کا یہ واحد پبلک جامعہ ہے کہ بلوچستان بھر سے طلبا یہاں زیر تعلیم ہیں۔ اگر یونیورسٹی کی موجودہ مالی بحران کی دوسری پہلو کو دیکھا جائے تو چونکہ تمام جامعات Autonomies (خودمختار) باڈی ہیں وہ اپنی ریونیو خود جنریٹ کریں، اگر بلوچستان یونیورسٹی کی ایڈمیشن یا دوسرے پالیسی پر دیکھا جائے تو انکی اس وقت مالی پوزیشن کا یہ عالم نہیں ہونا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسوقت بلوچستان یونیورسٹی کی ریوینیو سر پلس ہونا تھا مگر انتظامیہ کی غفلت اور کرپشن کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔

اب مزید یہ عمل بلوچستان جیسے پسماند ہ صوبے کے تعلیمی ادارے کے حق میں ہر گز نہیں ہوگا اور نا ہی کمزور، بے وسائل اسکا متحمل ہوسکتے ہیں۔ آخر کب تک یونیورسٹی اور طلبا اسی طرح محاذآرائی کرتے رہیں گے اور درس و تدریس کے عمل کو اپنی انا کی خاطر اس قوم و ملک کے ایک نسل کی تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں لڑتے رہیں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ طلبا اور یونیورسٹی کے مابین دوستانہ ماحول کے بغیر کوئی بھی تعلیمی ادارہ چل نہیں سکتا۔ اس وقت صوبے کے مفاد میں یہی بہتر ہوگا کی دونوں فریقین ادارے اور صوبے کے غریب طلبا کے عظیم تر مفادات کی خاطر ایک پیج پر ہوکر آپس کے ذاتی نوعیت کے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر جائز و اصل مسائل کی طرف توجہ دیکر راستہ نکالیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔