بلوچ کاؤنسلز و علم دوستی کے دعوے – جیئند بلوچ

408

بلوچ کاؤنسلز و علم دوستی کے دعوے

تحریر: جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے حالات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے اور دعویٰ کیا جائے کہ کاؤنسل کی تاریخ میں اگر پہلی بار کسی طلبا تنظیم نے انھیں مکالمے کے لیئے مجبور کیا تو وہ بی ایس او ہی ہے۔ اس امر کے لیئے بی ایس او کے سنگت داد کے مستحق ہیں۔

کہا جاتا رہا ہے کہ بلوچ کاؤنسل لاہور اور اسلام آباد تمام کاؤنسلز کے ابا میاں جب کہ ملتان کے کاؤنسل سوتیلے بچے تصور کیے جاتے ہیں۔ کئی بار اس کا انکشاف خود کاؤنسلز کے دوست بھی کرتے رہے ہیں۔ مگر مُلتان کے سنگتوں نے جو مکالمے کو ترجیح دے کر تحریری جواب دینے کی کوشش کی ہے، وہ اُنھیں دیگر کاؤنسل سے افضل پوزیشن فراہم کرتا ہے۔ خیر، مکالمے کے سلسلے کو جاری رکھنے کا بیڑا جس بہادری سے مُلتان کے کاؤنسلز میں موجود سنگتوں نے مجبور و کمزور کاندھوں کے ساتھ اُٹھانے کی کوشش کی، وہ قابلِ تعریف ہے۔ تمام تر نظریاتی اختلافات ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے تو مُلتان میں موجود کاؤنسل کے ان ساتھیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنے مؤقف کو سامنے رکھنے کے لیے تحریری مکالمے کا طریقہ کار اپنایا۔ یقینًا کچھ کم فہم کاؤنسلز کے نمائندگان کی طرف سے گالم گلوچ سے پیدا ہونے والی مایوسی کے بعد میرے عزیز دوستوں کی طرف سے تحریری جواب کا آنا ہمارے لیے اپنے نظریات کے دفاع کرنے سے بھی زیادہ مسرت بخش اس لیے بھی ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں میں‌اس پہ لگی قدغن نے جو خلا پیدا کیا، وہ اسی طرح جمہوری انداز میں مکالمے سے پُر ہو سکتا ہے۔

پیارے سنگتوں، نہیں معلوم کاؤنسلز میں موجود کتنے فیصد دوست قومی سوال اور طبقاتی رجحانات رکھتے ہوں گے۔ کیونکہ بلوچ طلبا کی ایک بہت بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ خیر بخش مری نامی شخصیت سے بطور قبائلی سردار تو واقف ہیں مگر طبقاتی شعور نہ ہونے/ رکھنے کی وجہ سے بہت کم دوست جانتے ہیں کہ خیر بخش مری جس اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے، وہ اُن کی قبائلی شخصیت سے زیادہ بھاری پہچان ہے اور وہ ہے ان کی مارکسی پہچان، جس پہچان سے بابا نے پوری زندگی اپنا مؤقف دیا اور ہمیشہ سوشلزم کو ہی سماج میں موجود ناانصافیوں کا آخری حل بتایا۔

جب کہ کاؤنسلز کے اندر طبقاتی تفریق اور اس سے پیدا ہونے والے استحصال کو جب ہم نے تحریری شکل دی تو کئی دوست بابا خیر بخش مری ہی کی تصویر ڈی پی پر لگائے ہمیں مارکسی کُتے اور غدار کہنا شروع ہوئے۔ اس سے کم از کم ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ جس بحث کا ہم نے آغاز کیا درحقیقت کاؤنسلز میں موجود کتنے لوگ اِسے جذباتیت کا شکار ہوئے بغیر پڑھنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ اس لیے طبقاتی سوال یا قومی سوال سے ہٹ کر اب میں صرف یہی کوشش کروں گا کہ آپ کی تحریر میں استعمال ہونے والے الفاظ کو زبان کی سیاست کے دائرے میں رہ کر ڈی کنسٹرکشن کے اصولوں کو لاگو کر کے دیکھوں کہ کس طرح کاؤنسل کی طرف سے موصول ہونے والی جوابی تحریر کے اندر استعمال کیے گئے الفاظ اور جملے personal reasoning کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کاؤنسل کے دوستوں نے تحریر کا آغاز جس جُملے سے کیا اس میں لفظ ”خلاف“ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ دراصل کاؤنسل کے دوستوں نے ہماری تحریر سے کیا اخذ کیا۔ پیارے سنگتوں، بی ایس او کی طرف سے اس تحریر کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ جو پڑھنے والوں نے اخذ کیا ہے۔ آپ کی تحریر کا آغاز ہی اس تناظر سے ہوتا ہے کہ کاؤنسلز تعلیم دوست ہیں، جی ٹھیک ہے اچھی بات ہے لیکن یہ مؤقف مزید وضاحت طلب ہے کہ طبقاتی تعلیمی نظام میں کاؤنسلز کے پاس ایسا کون سا پروگرام ہے جو بلوچ طلبا کو اُن کے جائز حقوق دلا سکے؟ فاروق سلہریا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں پورے بلوچستان سے زیادہ تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ جہاں ایسا طبقاتی نظام تعلیم اور قومی نابرابری موجود ہو، وہاں کوٹہ سسٹم (جو کہ ایک بھیک ہے) کاؤنسل کے دوستوں کی طرف سے اس بھیک پر خوش ہو کر بغلیں بجانا اور یہ کہنا کہ وہ تعلیم دوست ہیں، دراصل رسوائی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کاؤنسل کی اس کنفیوز پوزیشن کے برعکس بی ایس او طبقاتی تعلیمی نظام کو پسے ہوئے طبقے اور چھوٹی اقوام کے لیے لعنت تصور کرتی ہے۔

تحریر کے دوسرے پیراگراف میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ بی ایس او کی طرف سے مکالمے کی پہل کرنا دراصل سیاسی اسکورنگ ہے۔ محترم دوست کو اگر اندازہ نہیں تو وضاحت کرتا جاؤں کہ وہ جس کاؤنسل کے سابقہ عہدیدار رہ چکے ہیں، اس میں بھی ہماری تنظیم کے کئی سارے اراکین ہیں جو اپنا بنیادی کام کر رہے ہیں، یعنی نوجوانوں کو قومی آگاہی دینے کا۔ لیکن کبھی بی ایس او کے کسی دوست نے کاؤنسل کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ فقط اس میں جس قدر تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، اتنے کی کوشش جاری ہے۔ ہم مثبت تبدیلی چاہتے ہیں اور اس کے لیے پولیٹیکل اور تھیوریٹیکل دونوں گراؤنڈز پر کام کرتے رہیں گے۔ اب ایسی صورت حال میں بتایا جائے کہ مزید ہمیں پولیٹیکل اسکورنگ کی ضرورت آخر محسوس ہی کیوں ہوگی؟

جب کہ تیسرے پیراگراف میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کاؤنسل کا کام قومی ثقافت کا خیال رکھنا ہے۔ اس نقطے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکیڈمک مباحث کو مدنظر رکھ کر کاؤنسل کو جو بورژوا بیٹھک تصور کیا گیا ہے، اس کی انھیں کتنی سمجھ آئی۔ خیر دوست ذرا اگلی جوابی تحریر میں ضرور بتائیں کہ ہماری تحریر میں نیو – مارکسسٹ گرامچی کی جس کلچرل ہیگمنی کی تھیوری کے تناظر میں کاؤنسل کی اس ثقافت کو بورژوا ثقافت کہا گیا ہے، وہ انھیں کتنا سمجھ آیا؟۔ اِسی پیراگراف میں موصوف نے ہماری تنقید کے باوجود کہ کاؤنسلز نیولبرلزم کے غلیظ امپاورمنٹ پروجیکٹ سے متاثر ہو کر کیریئر کاؤنسلنگ کے نام پر بلوچ نوجوانوں کو بھٹکانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے، تعلیم دوستی کا دعویٰ دہرایا ہے۔ چوںکہ کاؤنسل کا دعویٰ ہے کہ وہ تعلیم دوست ہیں، اس لیے ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ انھیں لبرلزم اور نیولبرل معیشت کا کتنا اندازہ ہے؟

چوتھے پیراگراف میں موصوف نے کاؤنسل کے وجود میں آنے کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے پھر سے کوٹے کی ایک سو بیس سیٹوں کی بات کر کے خود کو فتح یاب ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں چند ایک سوال رکھنا چاہوں گا۔ کیا کاؤنسل کے پاس روایتی انداز میں انگلیوں پر کام گنوانے کے علاوہ کوئی اکیڈمک مکالمہ کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے بھی یا نہیں؟ کیا گلوریفائی کرنے سے کاؤنسل میں موجود خامیوں سے نظریں چرائی جا سکتی ہیں؟ جہاں تک کاؤنسلز کے وجود کا تعلق ہے اور یہ بھیڑ (جسے گلدستہ کہا جاتا ہے)، بلوچستان سے باہر کیسے پاکستان کے بڑے شہروں میں جمع ہوئی؟

یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں بلکہ ایک دہائی پہلے کی سلگتی ہوئی داستان ہے کہ بلوچستان پر چڑھائی کرنے والوں نے دھرتی کی لوٹ کھسوٹ کے لیے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ پہاڑ، میدان و گلی کوچے لاشیں اگل رہے تھے۔ عزت و آبرو بھرے بازار نیلام تھی اور وحشت کا راج تھا، مگر عوامی تحریک تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ تو فوجی آمر کے دھڑن تختے کے بعد پیپلزپارٹی حکومت میں آئی اور بلوچستان پیکیج کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز ہوا تاکہ عوامی غم و غصے کو کچھ ٹھنڈا کیا جا سکے۔ اسی پیکیج میں بلوچ طلبا کے لیے پاکستان کی بڑی جامعات میں نشستیں رکھی گئیں اور بلوچستان کے طلبا کی بڑی تعداد نے جنگ زدہ بلوچستان سے پنجاب میں جا کر پناہ لی۔ یہ خوش آئند بات تھی کہ بلوچ طلبا نے کاؤنسل کے نام پر اتحاد قائم کیا۔ مگر یاد رہے یہ اتحاد کسی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بنا بلکہ بحالتِ مجبوری یا عدم تحفظ کی بنا پر وجود میں آیا، جس کے سنبھالنے کا طریقہ کار بالکل قبائلی تھا، جس میں کوئی میر، ٹکری یا وڈیرہ خود کو کاؤنسل کا وارث سمجھتا ہے۔

پانچویں پیراگراف میں کاؤنسل نے پھر سے دعویٰ کیا ہے کہ وہ قوم کی تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نہیں معلوم وہ کون سی تعلیم ہے جو انھیں سیاسی اور غیرسیاسی کے درمیان ختم ہونے والے فرق کا ادراک نہیں دلا سکتی؟۔ معیشت کے متعلق عام سی اصطلاحات کا استعمال تک انھیں سمجھ نہیں آتا۔ سیاسی سماجی پہلوؤں کو سائنسی بنیادوں پرکھنے کے بجائے اب تک medieval ages کے مذہبی معیار کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جس میں صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ چیزیں یا تو اچھی ہوتی ہیں یا پھر بُری۔ اس سے بڑھ کر اس معیار میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ باتیں صرف حق میں یا مخالفت میں ہوتی ہیں، اس کے علاوہ تیسری کوئی جہت نہیں۔ کیا ایسے روایتی اور رجعت پسند رویوں کے ساتھ کاؤنسل کا یہ دعویٰ کہ وہ قوم کی تعلیمی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں، دُرست عمل ہے؟۔

یہاں مجھے جب ہمارے مرحوم دوست جاسم بلوچ (جو فلسفے میں گولڈ میڈلسٹ تھے) کا ایک بار کاؤنسل میں اسی طرح اظہار حمید نامی شخص کی مسلسل دو سالوں تک سماجیات میں فیل ہونے کے باوجود تعلیم دان ہونے کے دعوے پر مکالمہ یاد آ رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ کاؤنسلز یہ دعویٰ چھوڑ دیں کہ وہ قوم کی علمی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں یا پھر کاؤنسل میں اُن دوستوں کو جگہ فراہم کی جائے جو اس دعوے پر پورا اُتر سکتے ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔