بلوچستان کے معذور بچے – ٹی بی پی رپورٹ

499

بلوچستان کے معذور بچے
“پولیو، ایک ہاری ہوئی جنگ”

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ – میران مزار

فرزانہ لہڑی کو اپنے والدین اور بھائیوں سے یہ اجازت لینے میں مہینوں لگے کہ وہ بطور ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کام کرے۔ آخر کار وہ فرزانہ کے ضد کے سامنے جھک گئے اور اسے اجازت دے دیا، اور فرزانہ نے حکومت بلوچستان کے بنیادی صحت عامہ کے یونٹ میں کام کرنا شروع کردیا۔ نوکری کے تیسری مہینے وہ اپنے پہلی پولیو ویکسینیشن مہم پر جانے کیلئے بہت پرجوش تھی۔ لیکن اسکی خوشی زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی، کیونکہ مہم کے پہلے ہی دن اس پر تھوکا گیا، اور اسی ہفتے کسی نے دانستہ طور پر ان کے پیچھے برما ہوٹل کوئٹہ کے مقام پر ایک کتا چھوڑ دیا۔

تاہم، فرزانہ بلوچستان میں اپنے دوسرے کام کرنے والے ساتھیوں سے زیادہ خوش قسمت نکلی، جہاں گذشتہ چند سالوں کے دوران کئیوں کو بے قصور گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔ نسرین بی بی انہی بد نصیبوں میں سے ایک تھی، پینتیس سالہ لیڈی ہیلتھ ورکر نسرین کو اسی سال کے شروعات میں بلوچستان کے علاقے چمن میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا اور انکی ساتھی راشدہ اس حملے میں شدید زخمی ہوگئی تھی۔

یہ بات سمجھ نہیں آتا کہ وہ خطہ جہاں عورت پر ہاتھ اٹھانا عیب سمجھا جاتا ہے، وہاں آخر کیوں ان خواتین کو حراساں یا قتل کیا جاتا ہے، جن کا کام ہی بچوں کو ایک ایسی منحوس بیماری سے بچانا ہے، جو انہیں عمر بھر معذور کرسکتا ہے یا پھر انکی جان لے سکتا ہے؟ والدین آخر کیوں یہ خطرہ مول لیتے ہیں کہ انکا اولاد عمر بھر کیلئے اپاہج ہوجائے، وہ بھی ایک ایسے خطے میں جہاں اپاہج لوگوں کو پورا انسان تک نہیں سمجھا جاتا؟ وہ کیوں ایک بے ضرر ویکسین سے اتنے خوفزدہ ہیں؟

اس خوف و حراس کا ذمہ دار ایک مکروہ پروپگینڈہ مہم ہے۔

پاکستان میں پولیو کی دوبارہ واپسی ہورہی ہے، اس سال پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد گذشتہ سال کے نسبت 500 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2014 سے پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پولیو کے زیادہ تر کیسز بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سامنے آئے ہیں۔

اس وقت پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو علاقائی مرض کے طور پر موجود ہے، دوسرا ملک افغانستان ہے۔ تاہم موجودہ سال افغانستان میں پولیو کے سامنے آنے والے کیسز پاکستان سے پانچ گنا کم ہیں۔

عمومی طور پر بلوچستان ہر طرح سے انتظامی نا اہلی کا شکار نظر آتا ہے، تاہم، لیکن پولیو کے معاملے الزام صرف انتظامہ پر دھرا نہیں جاسکتا۔ مختلف امدادی تنظیمیں اور متحدہ عرب امارت حکومت اس خطے میں اب تک کھربوں روپے پولیوکے خاتمے پر لگا چکا ہے۔ ہر سال کئی پولیو مخالف مہم چلائے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ بیماری تیزی کے ساتھ بچوں کو معذور کرتا جارہا ہے۔

سب سے بڑی وجہ اس خطے میں مذہبی پیشواؤں جنہیں حرف عام میں “ملا” کہا جاتا ہے، انکا پولیو ویکسینیشن کے خلاف مسلسل جاری پروپگینڈہ مہم ہے۔ ان شدت پسند ملاؤں کا دعویٰ ہے کہ پولیو مہم دراصل مغربی جاسوسوں کیلئے بیرونی مقاصد حاصل کرنے کا ایک حربہ ہے، جو پولیو قطروں کے ذریعے مسلمان بچوں کی مردانہ قوت ختم کرنا چاہتے ہیں، تاکہ امت مسلمہ ختم ہوسکے۔

ایسے مذہبی پیشوا ہر جمعے کو آزادانہ طور پر لاؤڈ اسپیکروں کا استعمال کرکے لوگوں کو پولیو قطروں اور مہم کے خلاف تبلیغ کرتے اور اکساتے ہیں۔ اب تک کئی فتوے بھی جاری کرچکے ہیں کہ پولیو قطرے حرام اجزاء سے بنے ہیں۔

ان ہیلتھ ورکروں کو اکثر بیرون ملک ایجنٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس پروپگینڈہ کو شدت اس وقت ملی جب مبینہ طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کو پکڑنے کیلئے سی آئی اے کی مدد اسی طرح کا ویکسینیشن پروگرام چلا کر کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد تمام پولیو ورکرز کو امریکی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور کئیوں کو اسی وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق، اپریل 2019 سے لیکر ابتک کم از کم بیس لاکھ گھرانوں نے پولیو قطرے بچوں کو پلانے سے انکار کیا ہے۔ یہ اس پروپگینڈہ مہم کا نتیجہ ہے جب پشاور کے ایک نواحی گاؤں کے اسکول کے کئی طلبہ کو یہ کہہ کر ہسپتال میں داخل کرایا گیا کہ انہین پولیو قطروں کے بعد کوئی ریکشن ہوا ہے۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ ان طلبہ میں سے کسی کو بھی پولیو قطرے نہیں پلائے گئے تھے اور یہ پورا ایک پروپگینڈہ تھا۔ لیکن یہ والدین کو خوفزدہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

ایک اور تشویشناک امر ایسے بے بنیاد باتوں کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے تشہیر ہے، فیس بک صفحے اور وٹساپ گروپس کا استعمال ویکسینیشن کے خلاف پروپگینڈہ کیلئے استعمال ہوتا ہے، بہت سے تعلیم یافتہ گھرانے بھی ایسے حربوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ فیس بک نے اکتیس ایسے اکاونٹس کو بلاک کیا ہے جوویکسینشین کے خلاف متحرک تھے۔

ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ بلوچستان میں یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے مبینہ طور پر دور دراز کے علاقوں سے پولیو مہم کے ذریعے بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک کے خلاف معلومات اکھٹی کرتی ہیں۔ اس وجہ سے حقیقی پولیو ورکرز اور والدین کے بیچ اعتماد کا فقدان پیدا ہوا ہے۔ والدین اب اس خوف کا شکار ہیں کہ انکے اعدادوشمار غلط استعمال ہونگے۔ ایسے عوامل کی جلد از جلد روک تھام ہونی چاہیئے۔

عالمی ادارہ صحت بارہا واضح طور پر اس بات کی تردید کرچکا ہے کہ پولیو ویکسین کسی بھی طور پر نقصاندہ ہوسکتے ہیں۔ پولیو ویکسین بہت محفوظ ہیں اور کسی بھی قسم کے نقصان کے اندیشے انتہائی کم ہیں۔ تاہم اس پورے مذہبی پروپگینڈہ کو صرف اس طرح روکا جاسکتا ہے کہ دوبارہ اسے مذہبی عینک سے جائز قرار دلوایا جائے۔ اسی ماہ کے اوائل میں قاہرہ کے پولیو کے خلاف اسلامی مشاورتی گروپ نے پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے والدین سے اپیل بھی کی کہ وہ پولیو کے خلاف اپنے بچوں کا تحفظ کریں جیسا کہ اسلام اسکی نصیحت کرتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ عوامی آگاہی مہم چلائے جائیں اور لوگوں کے خدشات دور کیئے جائیں اور انہیں پولیو ویکسین کی اہمیت بتائی جائے۔ ان مذہبی پیشواؤں کی مدد بھی لی جائے جو پولیو ویکسین کے حق میں ہیں۔

اسی طرح بلوچ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس بے بنیاد مذہبی پروپگینڈے کے خلاف بلوچ سیاسی جماعتیں لوگوں کو آگاہی دیں تاکہ آنے والی بلوچ نسل ایک صحت مند زندگی گذار سکے۔