بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں وسعت لائی گئی ہے – ماما قدیر بلوچ

260

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ کو 3716دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا۔

وی بی ایم پی کے ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہر روز بلوچستان میں لاشیں پھینکنے اور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں وسعت لائی جارہی ہے، بیرونی دباؤ کے باعث پاکستانی مقتدرہ قوتیں ایک ایسی ذہنی الجھن کے شکار ہے جسے سلجھانے کی ہر تدبیر ناکام ثابت ہورہی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کی تحقیقات کے حکم نامے کا مندرجہ پہلوؤں کے علاوہ ایک رخ یہ بھی قرار دیا جارہا ہے کہ یہ سب ماضی کی طرح ایک ڈھونگ ہے، کم از کم بلوچ قوم اسے انتہائی مضحکہ خیز اور سنگین مذاق سمجھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا بلوچ سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں خصوصاً لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے متاثرہ لواحقین کا کہنا ہے کہ جو قاتل ہے وہی منصب بنے بیٹھے ہیں اور ابھی تحقیقات کا آغاز ہی نہیں ہوا ہے کہ یہ نتیجہ نکال لیا گیا کہ پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے بلوچ فرزندوں کے اغواء، گمشدگی اور ان کے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے واقعات میں ملوث نہیں ہیں، یہاں یہ بات اہم ہے کہ کیا تحقیقات حقائق سامنے لانے اور مجرموں کو سزا دینے کیلئے کی جارہی ہے یا حقائق کو چھپانے کے لیے یہ سب کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ اگر بلوچستان میں فورسز اور خفیہ ادارے جبری گمشدگیوں اور لوگوں کو قتل کرنے میں ملوث نہیں ہے تو ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے کونے کونے میں فورسز اہلکار کیا کررہے ہیں، ظاہری اور خفیہ شناخت رکھنے والے مسلح افراد کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے۔