آزاد بلوچستان میرا ایمان – سیف بلوچ

687

آزاد بلوچستان میرا ایمان

تحریر: سیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان اپنے وارثوں کیلئے جنت سے کم نہیں. وہاں کی آب و ہوا، سرمئی پہاڑیاں، نیلے سمندر اور روح کو تر و تازہ کرنے والے سیر و تفریح کے خوبصورت مناظر اپنی مثال آپ ہیں. اس جنت کی میں جتنی تعریف کروں کم ہے اور یہ میرے الفاظ کا محتاج نہیں.

قدرتی وسائل سے مالا مال اس سرزمین نے دنیا کو اپنی طرف ایسے مائل کیا ہے جیسے کسی اداکار/اداکارہ کے چاہنے والے اسے دیکھنے کیلئے بے چین ہوں.
کاش امیر بلوچستان کے عوام “امیر بلوچ” کہلائے جاتے لیکن صد افسوس کہ امیر بلوچستان کے عوام کو چوروں اور لٹیروں نے امیر اپنی جگہ، غریبی تک کا نہیں چھوڑا ہے. سامراج قوتوں نے ہمیشہ یہاں اپنی سامراجیت کو دوام دیا ہے اور اسے لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے.

قبضہ گیروں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے جس زمین یا ملک پر قبضہ کرتے ہیں تو وہاں خون کی ندیاں بہاتے ہیں یا ان کو ایسا زہر پلاتے ہیں جس سے وہ نہ مرتے ہیں نہ زندہ رہ پاتے ہیں بلکہ زہنی طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں، جسے ہم ذہنی غلامی بھی کہہ سکتے ہیں. کھوکھلا انسان نا خود کو پہچان پاتا ہے نا ہی اپنی شناخت کا وجود رکھتا ہے، جس کے اثرات نسل در نسل پر پڑتے ہیں.
امیر بلوچستان کی حالت کچھ یوں ہی ہے جہاں پاکستانی ریاست نے بلوچ نسل کشی کیلئے ہر طریقہ اپنایا ہے. کیونکہ وہ بلوچ عوام کو اس کے سرزمین سے کسی بھی طرح ہٹانا چاہتا ہے، چاہے اسے خون کی ندیاں ہی کیوں نہ بہانا پڑے. اسے تو بس بلوچ کی زمین اور زمین کے اندر موجود وسائل درکار ہے، بلوچ عوام سے کوئی سروکار نہیں.

کسی بھی قوم میں نوجوان جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں. قبضہ گیر ریاست نے بھی بلوچ قوم کی کمزوری پر وار کیا ہے. یعنی سب سے پہلے نوجوان نسل کو اپنا ٹارگٹ بنایا ہے اور اسے تعلیم جیسی نعمت سے محروم کرکے منشیات جیسے زہر کا ماحول دیا ہے. جس سے نوجوان ذہنی حوالے سے مفلوج ہوچکے ہیں جو نہ خود کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی اپنے عوام کی مظلومیت کا احساس رکھتے ہیں. ان کو اپنے حقوق کی باتیں زہر لگتی ہیں.

سامراجی قوتوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ جہاں بھی اپنی سامراجیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ وہاں خوف کا ماحول ضرور پیدا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے بڑے ہتھیاروں میں سے ایک ہے. قبضہ گیر ریاست نے بلوچ عوام کو ایسے خوف میں مبتلا کیا ہے جو اپنے حق کی بات کرنے پر کتراتے ہیں. ہر طرف خوف کا سماں ہے. اگر کوئی حق بات بول بھی دے تو دوسرا یہ کہہ کر چپ کرا دیتا ہے کہ “ایسا مت کہو، کوئی سن لے گا تو فلاں فلاں طرح تم بھی لاپتہ کئے جاؤ گے”. بلوچ عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے لاپتہ کرنے کا یہ سلسلہ قبضہ گیر ریاست کی جانب سے جاری ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کو بھول جائیں اور غلامی کے زنجیر میں جکڑے رہیں.

باضمیر انسان ہمیشہ انسانیت کی قدر کرتا ہے اور ہر ظلم کیخلاف اپنی آواز بلند کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس عمل کو اپنانے کی نصیحت کرتا ہے. بلوچ ماؤں نے ایسے ہزاروں لاکھوں باضمیر اور بہادر سپوت جنم دیئے ہیں جو اپنا حق جانتے ہیں، جنہیں اپنے اور اپنی قوم کی مظلومیت کا احساس ہے. ہزاروں بلوچ فرزندانِ وطن نے ظالم ریاست کی قبضہ گیریت کیخلاف اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے لیکن اپنی سرزمین کا سودا نہیں کیا ہے. ہزاروں فرزندانِ وطن ظالم کیخلاف سر بہ کفن ہیں.

ایسے نڈر سربازوں کے جدوجہد اور قربانیوں کو دیکھ کر میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ بلوچ قوم اپنی منزل کو پانے میں ضرور کامیاب ہوگی اور یہ میرا ایمان ہے کہ جب تک قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا، تب تک کوئی بھی قوت ہماری آزادی کی جدوجہد کو ناکام نہیں کر سکتا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔