حماس اور فتح کے درمیان معاہدہ طے پاگیا

252

فلسطین کی دو اہم مخالف سیاسی جماعتوں، حماس اور فتح کے درمیان سیاسی مفاہمت کا معاہدہ طے پاگیا۔

الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے رہنما اور فلسطین کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ان کی تنظیم اور مخالف تنظیم کے درمیان سیاسی مفاہمت کے تحت معاہدہ طے پاگیا۔

تاہم انہوں نے اس معاہدے کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات آج (12 اکتوبر کو) کسی بھی وقت مصر کے دارالحکومت قائرہ میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتادی جائیں گی، جہاں رواں ہفتے منگل کے روز سے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔

اسماعیل ہنیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’فتح اور حماس کے درمیان مصر کی حمایت سے ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک معاہدہ طے پاگیا ہے‘۔

یال رہے کہ فتح نے 2007 میں حماس سے ہونے والی لڑائی کے بعد غزہ پر اپنا کنٹرول کھو دیا تھا، لیکن گذشتہ ماہ حماس نے فتح کی مدد سے قائم، صدر محمود عباس کو غزہ کی حکومت سنبھالنے کی پیش کش کی تھی اور یہ معاہدہ بھی مصر کی حمایت کے باعث عمل میں آیا تھا۔

قائرہ میں ہونے والا حالیہ اجلاس دونوں اہم سیاسی پارٹیز کے 2011 کے قائرہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے منعقد کیا گیا تھا جس کا مقصد دونوں تنظیموں میں 10 سالہ سیاسی کشیدگی کو ختم کرنا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں شامل ایک پارٹی نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ اس معاہدے کو مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقے غزہ پر لاگو کیا جائے گا جہاں فتح کی اکثریت ہے اور یہ رفاہ کے قریب کا علاقہ ہے جو غزہ اور مصر کے درمیان سرحد پر قائم ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطین کی تمام تنظیمیں آئندہ دو ہفتوں کے دوران ایک قومی اتحادی حکومت بنانے کے لیے مذاکرات کا آغاز کرسکتی ہیں۔

واضح رہے کہ مصر، غزہ سے منسلک اپنے سرحدی علاقے صحرائے سینا کی سیکیورٹی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جو جنگجوؤں کے نشانے پر تھا۔

حماس اور فتح 2014 میں بھی انتظامی سطح پر قومی مفاہمت پر متفق ہوگئے تھے لیکن تفصیلات پر یکسو نہ ہو سکے تھے۔

حماس کی 2006 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ایک متفقہ حکومت بنائی گئی تھی جو مختصر وقت تک برقرار رہی تھی۔

یاد رہے کہ گذشتہ کچھ ماہ کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے حماس پر مذکورہ علاقے کا کنٹرول چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا، اس میں غزہ میں رہائش پذیر ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی اور اسرائیل سے اس علاقے میں بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کی درخواست جیسے اقدامات شامل ہیں۔

حماس کو دباؤ میں لانے کے لیے محمود عباس نے اسرائیل کو بجلی کے واجبات کی ادائیگی روک دی تھی جس کے بعد روزانہ چار سے چھ گھنٹے بجلی کی بندش ہوتی تھی۔