افسانہ | جب تم آؤگے – زوہیب بلوچ

590

افسانہ ۔ جب تم آؤگے

تحریر: زوہیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تم نے کہا تھا “اپنی ڈائری دینا کہ میں اپنے ساتھ محاذ پر لے جاؤں، تمہاری ڈائری پاس رہے گی تو تمہاری قربت کا احساس رہے گا۔”
میں نے کہا “لیکن ابھی اس کے بعض صفحے خالی ہیں، میں نے ہماری دو سالہ مشترکہ زندگی کی یادیں لکھ لی ہیں لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں، باقی بھی لکھ لوں مکمل ہوجائے تو چنار کے پتوں میں لپیٹ کر پیش کردوں گی تاکہ اس کے بعد تمہیں میری یادنہ ستائے”

آج رات میں وہی کروں گی، جو کئی سال پہلے کہہ رہی تھی وہ چند خالی صفحے لکھوں گی کہ کل صبح تمہارے لیئے لے آؤں، تم اسی وقت محاذ سے واپس لوٹے تھے، تھکے ہوئے تھے، جنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ سفر کی تھکاوٹ تھی، تمہارے چہرے اور کپڑے مٹی سے اٹے ہوئے تھے، تمہیں خود اپنی حالت سے شرمندگی ہورہی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ آرام سے کمرے کے اس کونے میں جاکر بیٹھ گئے تھے لیکن مجھے تمہارے کپڑے، ان پر بیٹھی مٹی، سمیت سب کچھ پسند تھی میں نے خود کہا تھا کہ ہمارے گھر ہمیشہ محاذ کے کپڑوں میں آنا تمہارے کپڑوں سے محاذ کی خوشبو آرہی تھی. نمناک مٹی کی خوشبو. تمہارے کپڑوں کا رنگ باغ کے سبزے جیسا تھا، ایسا سبزہ جس پر مٹی بیٹھی ہو، تم نے کہا تھا میں ایک آپریشن پر تھا کل واپس چلا جاؤں گا، اور میں نے ابھی طنزیہ انداز میں کہا ابھی آئے بھی نہیں اور واپس جارہے ہو اور تم چُپ ہوگئے تمہاری چُپ ہمیشہ بولتی تھی، ہمیشہ میٹھی ہوتی تھی، اسی لیئے میں اس سے کبھی بیزار نہیں ہوتی، میں نے تمہارا سکوت توڑنے کےلئے کہا اگر میں جانے نہ دوں تو؟ اگر میں تمہیں دوبارہ محاذ پر جانے نہ دوں تو تم کیا کرو گے؟

تم نے حیرت سے میری طرف دیکھا، جیسے میرے چہرے پر لکھا درد غم پڑھ لیا ہو تم نے، کہا جانتی ہو وہاں میرا دل رہ گیا ہے ایک بار جاکر وہ لے آؤں پھر بےشک جانے مت دینا۔

زیادہ سنجیدہ دکھائی دینے کی عرض سے میں نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا ویسے کتنے دل ہیں تمہارے؟ اپنے آخری میسج میں تم نے لکھا تھا کہ تمہارا دل ہمارے گھر رہ گیا ہے۔

ابو اندر آئے اور میرا سوال بغیر جواب کے رہ گیا، اب ان کے بولنے کی باری تھی اور ابو کو پسند نہیں تھا کہ تم زیادہ ہمارے گھر آیا جایا کرو، کہتے تھے ابھی نکاح تو نہیں ہوا تمہارا۔ بس بات ہی پکی ہوئی ہے اچھی بات نہیں لوگ پیٹھ پیچھے باتیں کریں گے، تمہارا ان کے گھر بیاہ ہو کر جانا بھی تو حمتی نہیں ہے ابھی تک یا جنگ ختم ہو یا تمہاری پڑھائی تو یہ مسئلہ بھی سلجھ جائے۔

اس کے بعد چیری کے پودے کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے، جسے تم نے خود ہی ہمارے گھر بویا تھا تم نے اسے غور سے دیکھ کرکہا ابھی تک بڑے نہیں ہوئے تم؟
اور میں کوئی بھی جواب دیئے بغیر چنار کے درخت سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی اور پوچھا اس بار چلے گئے تو کب تک لوٹو گے؟

تم پھر خاموش ہوگئے اور کچھ نہیں کہا۔ میں نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تو کہنے لگے میں ایک دن واپس لوٹوں گا جس روز ہمارے چیری کے درخت پر شگوفے کھلیں گے۔

میں نے ناراض ہوکر اپنا رخ پھیر لیا اور کہا تم کتنے سال تک محاذ پر لڑتے رہوگے؟

بہار ہوتے ہی واپس لوٹوں گا۔ میں چھ مہینے تک محاذ پر ہوں تم ایک ماہ تو صبر کر چکی ہو پانچ مہینے بھی گذر جائیں گے تم نے جواب دیا میرا دل بھر آیا اور میں نے کہا جانتے ہو نثار، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی تم ایک دن بھی نہیں ہوگے تو میں بھی نہیں جی پاؤں گی تمہارے بغیر زندگی میرے لئے کڑوی اور بے معنی ہوجائے گی۔

تم نے جواب دیا۔ ہانی! تم نے کبھی سوچا ہے زندگی کیا ہے؟ میں نے اپنے آنسو پونچھے اور دوبارہ اپنے دو جملے تمہارے لیئے دہرادیئے وہی جن پر تم بری طرح عاشق تھے۔

زندگی کا مطلب ایک نئی زندگی کے طلوع کے لیئے ایک خاص نقطے کے بارے میں دو لوگوں کا متفق ہونا ہے. زندگی کا مطلب آسمان کے دور ترین حصے میں دو کبوتروں کی پرواز ہے۔

تمہارے محاذ پر چلے جانے کے بعد میری ساری امیدیں تمہارے میسجز تھے، وہ میسجز جو ہر دن تم مجھے کرتے تھے اور پھر ہر ہفتے کرنے لگے، وہ میسجز میرے تنہا غمخوار تھے، میری راتوں کی تنہائی کے مونس تھے لیکن کچھ عرصے بعد تم نے اور کوئی میسج نہیں بھیجا اور میں نے تمہارے پچھلے میسجز کو بے شمار مرتبہ پڑھا میں نے انہیں اتنی بار پڑھا تھا کہ مجھے تمہاری سارے جملے ازبر ہوگئے تھے تم نے کہا تھا کہ بہار کے موسم میں آوگے، بہار آگئی تھی لیکن تم نہیں آئے اور ہمارے چیری کا درخت چھوٹا تھا لیکن، اس پر شگوفے آسکتے تھے۔

ایک دن گاؤں میں تماری شہادت کی خبر آئی، کہہ رہے تھے کہ تمہیں گہرے زخم لگے تھے، ایک گولی تمہارے آنکھ کے گوشے کو چیرتے ہوئے نکلی تھی اور چند گولیاں تمہارے بازو اور سینے سے گزریں تھیں۔ وہ تمہیں اور چند اور شہداء کو لانے میں ناکام رہے تھے۔ دشمن پہنچ گئے تھے مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ میں نے ان کی ساری باتیں سنیں لیکن مجھے ان پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اتنی آسانی سے کیسے ممکن تھا۔

تمہاری شہادت کی رسومات ادا کی گئیں لیکن میں نہیں روئی مجھے یقین تھا کہ تم ایک دن ضرور واپس آوگے. شاید اس دن جس دن سارے اسیر واپس آئیں گے یا پھر تب جب ہمارے گھر کے چیری کے درخت پر شگوفے آئیں گے، میرے حال پر سب کو ترس آتا۔ سب کہتے تھے اس کا دماغ چل گیا ہے، آج کل میں پاگل ہوجائے گی۔

پھر انہوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا، میں خود سے کہتی تھی کہ وہ میرے بارے میں جو بھی سوچتے ہیں سوچنے دو نثار آئے گا تو میں اسے یہ ساری باتیں بتاؤں گا، اس سے کہوں گی کہ تمہاری ہانی کو یہ لوگ پگلی سمجھتے تھے اور تم یہ سن کر زور سے قہقہہ لگاؤ گے۔

انتظار کے کڑوے اور کٹھن سال ایک ایک کرکے گزر رہےتھے، تمہاری راہ دیکھتے ہوئے میرے سال اور ادھر ہمارے صحن میں لگا چیری کا درخت بھی ہر سال بڑا اور بلند تر ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس پر شگوفے آنے لگے۔ مجھے معلوم تھا کہ عنقریب اس پر شگوفے کھلیں گے۔ مجھے اس دن کا شدت سے انتظار تھا اور میں اپنا سارا وقت اس کے پاس بیٹھ کر گذارتی تھی، انتظار میں گذرتا ہوا اپنا کٹھن وقت۔

ایک دن صبح سویرے اٹھ کر میں نے کھڑکی سے دوسری طرف چیری کے درخت کو دیکھا، اس پر شگوفوں کی بوچھاڑ تھی، میں امی سے بولی، امی دیکھو! ان شگوفوں کو دیکھو۔ نثار آج کل میں پہنچتا ہی ہوگا، وہ آپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ میں نے کہا نثار آئے گا تو مجھے شگوفے توڑ کر اس کے قدموں پر نچھاور کرنا پڑے گا۔ تاکہ اس کے جوتوں کے تلوے پر لگی مٹی کو صاف کردیں محاذ کی مٹی کو، جب سارے شگوفے اس کے قدموں سے متبرک ہوجائیں گی تو انہیں جمع کرکے اس سے ملنے والوں میں بطور تحفہ بانٹوں گی۔

میں صحن میں جاکر چیری کے درخت کے شگوفوں کو ایک ایک کرکے گننے لگی۔ ان کی تعداد میرے سفید بالوں کے برابر تھی، وہ سفید بال جو تمہارے جانے کے بعد میرے سر پر ظاہر ہوتے گئے۔

یہاں تک کہ میرے کئی سالوں کا انتظار اپنے اختتام کو پہنچا، تمہارے بغیر اور چپ چاپ برسوں کا اختتام ہوگیا، آج صبح سپاہ سے خبر ملی ہے کہ تم لوٹ آئے ہو۔ سب یہی کہہ رہے تھے اور زاروقطار رورہے تھے۔
لیکن کیوں!

مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک گھنٹے بعد ہم اسپتال میں تھے اور پھر چند منٹ بعد تمہیں لایاگیا تم خاموش اور پر سکون انداز میں اس صندوق میں سوئے تھے اور ایک سفید چادر تمہارے چہرے سے ہٹائی گئی۔ ایک انسانی ڈھانچہ تھا، وہ تم تھے۔ تمہاری آنکھ کے کنارے پر گولی لگی تھی اور اس کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی، میں فوراً تمہیں تمہاری آنکھوں سے پہچان لیتی۔ میں جھکی اور آرام سے تمہیں سونگھا ۔محاذ کی خوشبو ابھی تک تمہاری جسم سے آرہی تھی۔ بھیگی مٹی کی خوشبو،

میرا جی چاہتا تھا کہ تمہارے آنے کی خوشی میں اپنے جسم کے سارے شگوفے تمہارے چپ چاپ قدموں میں نچھاور کردوں، اس سفید چادر پر جس نے تمہیں اپنی آغوشِ میں لے رکھا تھا.

میں نے کہا دیکھا نثار جھوٹ نہیں بول رہا تھا آخر کار ایک دن واپس آہی گیا، وہ سمجھ رہے تھے کہ تم مرچکے ہو جبکہ میں پاگل ہوچکی ہوں۔ اسی لئے وہ سب زور زور سے رونے لگے کتنی دیر لگادی انہوں نے تمہیں لانے میں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔