سنگت ظہیر کی کُچھ یادیں
تحریر: گزّو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یقیناً آج جو میں لکھ رہاہوں تو دل کی دھڑکنیں تیز، آنکھوں میں تاریکی، پیروں میں لرزش اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ اور ذہن میں بے چینی ہے کیونکہ میں ایک ایسے انساں دوست کی تعریف کررھا ھوں، جس کیلئے ہر بیان ناکافی ہے ثابت ہوگا۔
میرے خیال میں میری پہلی ملاقات 8 اپریل 2009 کو سنگت ظہیر جان سے بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقہ مشکئے میں وطن کے کُچھ حقیقی فرزند راجی راہبر واجہ شہید غلام محمد، شہید شیر محمد، شہید لالا منیر کی پہلی برسی پر ہوئی، میں جلسہ گاہ میں شامل ہوا تو سنگت ظہیر جان اسٹیج سیکریٹری تھے، جلسہ شروع ہوا تو سنگت ظہیر جان سب دوستوں سے پہلے بلوچی زُبان میں شھیدوں کو خراج عقیدت پیش کی، دس منٹ شھیدوں کی یاد میں پورے جلسہ گاہ کے لوگوں کوکھڑا کرکے خاموشی اختیار کرنے کو کہا بعد میں کسی اور دوست کو اسٹیج پر بُلاکر خطاب کرنے کی دعوت دی۔
خیر کُچھ گھنٹے کے بعد جلسہ ختم ہوا تو مُجھے اور چند دوستوں کو ایک کمرے کے اندر بلایا اور ہم ایک خصوصی دیوان میں دو چار گھنٹے تک مشغول رہے، اس وقت سنگت ظہیر جان بی ایس او آزاد مشکئے زون کی صدر تھے اور مجھ سے مُخاطب ہوکر بی ایس او آزاد میں شامل ہونے کو کہا تو میں نے سنگت ظہیر جان سے ایک سوال پُوچھا کہ سنگت بی ایس او آزاد میں شمولیت ہمارا فرض ھے لیکن میں کُچھ نہیں جانتا ھوں، میں تعلیم کے لحاظ سے بُہت کمزور ھوں، جو آج میں نے آپ اور باقی دوستوں کو بلوچ عوام کے سامنے خطاب کرتے دیکھا اتنے الفاظ میرے پاس نھیں ھیں تویہ کیسے ھوگا؟ سنگت زور سے ہنس کر بولے بھائی جان ماں کے پیٹ سے کوئی سیکھ کر نہیں آتا ہے، ادھر ایک آپشن آپکے پاس موجود ھے، وہ واحد آپشن ھے تعلیم و تربیت۔ بی ایس او آزاد بلوچ قوم کا ادارہ ہے، جو بلوچ قوم کو غلامی سے نکال کر آزادی کی طرف لے جارہا ھے، میرا اور آپکا باقی سب بلوچ نوجوانوں کا درس وتعلیم اسی بی ایس او آزاد سے ہوگا۔ یہی بی ایس او بلوچ نوجوانوں کی رہبری کرتا ھے۔
میں مُطمیئن ہوکر سنگت ظہیر جان کی اِن باتوں سے باقاعدہ چار دوستوں کے ہمراہ بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کرلی، بلوچ کی آواز کو دُنیا تک پہنچانے کے لئے جدوجہد کا حصّہ بن گیا۔
اس وقت 2009 تھا، میں نے اپنے سیاسی سفر ظہیر جان و باقی بلوچ قوم کے نوجوانو ں کے ساتھ آغاز کرکے مُختلف محازوں کا دورہ کرکے بلوچ کے گھر گھر اور دُنیا تک بلوچ کی آواز کو پہنچانے میں اپنا بھر پورکوشش کی اور جد جہد کو جاری رکھا آخر کار 2012کو بی ایس او آزاد سے فارغ ہوا۔
بعد میں سنگت ظہیر جان بلوچ نے راجی مُسلح تنظیم کے کارواں میں شامل ہوکر دُشمن کو سبق سکھانے کے لیئے پہاڑوں کارُخ کیا اور وطن کے حفاظت کے لیئے اپنے عیش و عشرت کی زندگی، جوانی اور سب کُچھ چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ ظہیر جان جانتاتھا کہ ہمارے پاس جنگ کے بغیر اور کوئی راستہ نہیں ھے اور اس جنگ میں بلوچ کی شناخت بھی موجود ہے۔
اگر کسی کی ماں بہنیں اس دُنیا میں اپنی مُلک کے اندر حفاظت میں نہیں ہیں تو وہ کیسے آرام کی زندگی بسر کرسکتا ہے، لازُم اُسے کُچھ کرنا ھوگا، چاہے وہ کسی شکل میں ظُلم و جبر کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے تو چُپّ رہنا عیب ہوگا، غیرت مند انساں کے لیئے۔
ظہیر جان کی آنکھوں میں غیرت کی آنسو نہر کی طرح بہہ رہے تھے تو بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا گھر سمجھ کر اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کے درد وغم میں شامل کرکے بلوچ نوجوانوں کو مزید مظبوط و مُحکم کیا، سنگت ظھیر جان ایک دفعہ پاکستانی فوج کے ساتھ دو بدو لڑائی میں دُشمن کی گولی لگنے سے زخمی بھی ہوئے، تو میں کسی اور جگہ پہ تھا، مجھے کسی دوست نے فون پر بتایا کی یار میرا بھائی ظھیر جان اسی جنگ میں زخمی ہوئے ہیں، تو میں پریشان ہوکر مبائل فون بند کرکے پہاڑ سے نیچے اُترا اور باقی دوستوں نے مجھے حال احوال کی، کیا حال احوال ہے نیا تازہ تو میں نے سنگت ظھیر جان کی زخمی ھونے کا خبر سُنایا تو دوستوں نے سنگت ظھیر جان کی سلامتی کے لئے ایک اللہ پاک سے دُعا کی۔ جب تھوڑی دیر بعد میرا سنگت ظھیر جان سے فون پر رابطہ ھوا تو میں نے کہا کیسی ھے آپکی طبیعت، میں نے سناہے کہ دُشمن سے جنگ میں آپ زخمی ھوئے تو سنگت ظھیر جان نے کہا یار ابھی میں ٹھیک ھوں جو میرا دل کی آرزو تھا وہ پوراہ نہیں ہوسکا، میں نے کہا کیا مطلب، کیا کہنا چاھتے ہو؟ تو سنگت نے جواب دیا کاش میں اِس جنگ میں شہادت کا رُتبہ حاصل کرسکتا، تو میرے لیئے کتنا اچھا تھا۔ میں بُہت بڑا بد نصیبب ہوں کہ میں بچ گیا، خوش نصیب انساں وہ ہے جو اپنے وطن اور آبرو کی خاطر اپنے آپکو قربان کرکے شھید ھوتے ہیں۔
سنگت ظھیرجان ایک مُخلص اور سچے انساں تھے، وہ ھمیشہ اللہ پاک سے یہی دُعا مانگتا تھا کہ یارب مُجھے اپنے وطن کی مٹی میں شہادت نصیب فرما، جو خواب سنگت ظھیر جان بار بار دیکھ رھے تھے وہ پورا ہوگیا۔
سنگت ظھیر جان نے سات یا آٹھ سال پہاڑوں میں اپنی زندگی بسر کی اور بلوچستان کے مُختلف گلی کوچوں میں گُھس کر دُشمن کو شکست سے دوچار کردیا۔
ہم کیسے بھول جائیں وطن کے ایسے فرزندوں کو کہ جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیئے قربان کیا، 2 ,5, 2019 کو آخر کار سنگت ظھیر جان کو بلوچستاں کے ضلع کیچ کے علاقے بُلیدہ میں پاکستانی آرمی اور اُس کے زر خرید ایجنڈوں نے ایک اور دوست کے ساتھ کسی راستے کی ناکہ بندی کرکے شھید کردیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔