کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لیے احتجاج جاری

349

بلوچ قوم حالت جنگ میں ہے، نوجوانوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑی ہیں، بلوچ گدان جل رہے ہیں، بلوچ خواتین پر حملے ہورہے ہیں اور وہ لاپتہ کیے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر، وکلاء، دانشور اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اس وقت 47ہزار بلوچ مرد اور خواتین ریاستی اذیت خانوں میں بند ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ میں کیا۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ کو 3688 دن مکمل ہوگئے جہاں مشکے سے سیاسی و سماجی کارکن رحیم بخش بلوچ، داد محمد بلوچ اور دیگر نے آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ بھی کیمپ میں موجود تھی۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ایک طرف لاشیں گررہی ہے تو دوسری جانب ہم عیاشیوں میں مصروف ہیں، بلوچ گدانوں پر جیٹ طیاروں سے حملے ہورہے ہیں، ہمیں اپنے کاروبار کا فکر ہے، مکران کے علاقوں میں بلوچوں کو زندہ جلایا جارہا ہے ہمیں صرف اپنی اہل و عیال کی فکر ہے اُن کے بارے میں سوچتے نہیں جن کے گھروں کو جلایا جارہا ہے۔ بلوچ اسیران کی چھوٹے بچے پریس کلبوں کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہے ہیں سکول جانے کی بجائے پریس کلب کا رُخ کرتے ہیں کیا ہمیں احساس ہے کہ ان بچوں کا مستقل کیا ہوگا لیکن ہمیں صرف اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ عورتوں کی بے حرمتی اور بلوچ ننگ و ناموس کی پامالی روز کا معمول بن چکا ہے، بلوچ قوم کی باغیرت عورتیں درندگی کا نشانہ بن رہی ہے اور آج کل بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اجتماعی قبریں مل رہی ہے۔