مسلح جدوجہد | قسط 4 – کوامے نکرومہ | مشتاق علی شان

318

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 4

مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ

جدید نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد | پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ | بیرونی فوجی تیاری

ترجمہ : مشتاق علی شان

جدید نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد
THE STRUGGLE AGAINST NEO COLONIALISM

فوجی حکمتِ عملی کے اندر سیاسی مقاصد سمائے ہوئے ہیں۔ سارے فوجی مسائل سیاسی ہیں اور سب سیاسی مسائل معاشی ہیں۔
افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی آزادی کی تحریکوں کے دوران یہ تجربہ حاصل ہوا ہے کہ لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے سامراج سے براہِ راست ٹکراؤ کی حکمتِ عملی اختیارکی جائے۔افریقہ میں کٹھ پتلی حکومت اور استحصال کے سارے طریقوں کو ختم کر دینے سے ہی قوم کو بچایا اور حقیقی تحریکِ آزادی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ہمیں اس تصادم اور للکار کو قبول کرتے ہوئے آزاد اور متحد افریقہ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
آزادی آخری منزل نہیں بلکہ یہ بھی عوام کی انقلابی جدوجہد کا ایک مرحلہ ہے

پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ
PROPAGANDA AND PSYCHOLOGICAL WARFARE
جدوجہد کے دوران دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیے جو حربے استعمال کرتا ہے انھیں سمجھنا چاہیے۔کیونکہ جب وہ گوریلوں کی منظم جدوجہد کو نہیں روک پاتا تو پھروہ اپنے پرانے آزمودہ طریقے استعمال کرتا ہے۔مثال کے طور پر جب وہ ویت نام میں گوریلوں کا مقابلہ نہ کر سکا تو پھر اس نے گوریلوں کے خلاف پروپیگنڈے کا محاذ کھول دیا۔

اس نفسیاتی اور جنگی پروپیگنڈے کے مقاصد یہ ہیں:
(1) آزادی کی تحریک کو منظم ومستحکم ہونے سے روکنا اور اس کے ساتھ ساتھ حریت پسندی کے جذبے کو ختم کرنا۔
(2)جہاں انقلابی مسلح جدوجہد ہو رہی ہو اسے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کچھ سیاسی،معاشی،وسماجی ”اصلاحات“ کی جاتی ہیں۔جیسے ”انتہا پسندوں‘‘کے ذریعے جدوجہد کا ختم کیا جانا۔

نشریاتی اداروں کے ذریعے نفسیاتی گھیراؤ کیا جاتا ہے، جن میں BBC ،وائس آف امریکا، وائس آف جرمنی جیسے نشریاتی ادارے شامل ہیں۔ مختلف WAVELENTHپر مختلف زبانوں میں لوگوں کے ذہنوں میں قومی آزادی کی تحریکوں کے خلاف زہر بھرا جاتا ہے۔ جبکہ یہ پروگرام خصوصی انگلش (SPECIAL ENGLISH) میں بھی گھنٹوں نشر کیے جاتے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ میں لفظوں سے بھی بھرپور مدد لی جاتی ہے۔ مختلف سرمایہ دار ممالک ”انقلابی“، ”قوم پرستی“، ”کلچر“ اور ”شہری تعلیم“ کے نام سے نام نہاد ”آزاد پبلشنگ ادارے“ قائم کرتے ہیں جن میں آزادی کی تحریکوں کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے۔جبکہ اشتہارات اور پمفلٹس وغیرہ کے ذریعے بھی مغربی تہذیب و ثقافت کے راگ الاپے جاتے ہیں اور یہ مواد مختلف ذرائع سے شہر شہر، قریہ قریہ تقسیم کیا جاتا ہے۔جب اس پروپیگنڈے کے ذریعے وہ اپنے لیے ماحول سازگار دیکھتے ہیں تو پھر باقاعدہ فوج کے ذریعے اس ملک میں داخل ہو جاتے ہیں۔یہ ان کا پرانا طریقہ کار ہے جیسے پہلے مسیحی مشنری کے ساتھ یہ آتے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک غلام بن جاتے تھے۔ان تمام مشنریز کو بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کی طرف سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔

اب سامراج کی نئی نفسیاتی حکمتِ عملی یہ ہے کہ پسماندہ ممالک خود حکومت نہیں چلا سکتے۔سامراج نے اس چال کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی ہے کہ نوآبادیات یا جدید نوآبادیات کے دوران وہ ترقی کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جو افریقی ممالک آزاد ہوئے وہاں کی حکومتیں فوجی بغاوتوں کے ذریعے ختم کی گئی ہیں اور اسے مثال بناتے ہوئے وہ نوآبادیات اور جدید نوآبادیات کے حق میں دلیل دیتے ہیں۔

اب سامراج کی مہم یہ ہے کہ وہ پریس،ریڈیواور فلم وغیرہ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ افریقہ نوآبادی بنا رہے۔

درحقیقت افریقہ نے جو سیاسی بیداری اور ترقی کی ہے اسے یہ بھول جاتے ہیں۔1957میں جب گھانا آزاد ہوا اور افریقہ سیاسی طور پر بیدار ہونے لگا تو اس وقت 8ریاستیں آزاد ہوئیں۔آج دس سال بعد آزاد ریاستوں کی تعداد 40سے بڑ ھ چکی ہیں اور بہت سے ممالک میں اس وقت بھی جدوجہد جاری ہے۔

نفسیاتی طور پر مایوسی پھیلانے کے لیے سامراج مندرجہ ذیل حربے اور چالیں استعمال کرتا ہے
(1) انفرادی طور پر افریقیوں کو ہمیشہ ظالم اور وحشی پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد میں بھرپورحصہ نہ لے سکیں۔ ان کا یہ جوازباآسانی رد کیا جاسکتا ہے کیونکہ انھوں نے کبھی یورپ کی آزادی کی جنگوں،جنگی فتوحات اور انقلابات کو اخلاقی یاغیر اخلاقی طور پر پیش نہیں کیا ہے جو کہ مغرب کا تاریخی حصہ ہے۔
آزادی کے لیے ہماری مسلح جدوجہد نہ اخلاقی ہے اور نہ غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ سائنسی اور تاریخی ہے
(2) ہماری انقلابی تحریک کے لیے جو دلیل دی جاتی ہے اسے ”معاشی“ کا نام دیا جاسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جدید نوآبادی نظام کسی بھی ملک کے لیے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ ان ممالک کے لیے اس ابتدائی حالت میں فوجی تربیت اور ہتھیار حاصل کرنا دشوار ہے۔اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ چونکہ تم ابھی ترقی پذیر ہو لہذاتمھیں فوجی تربیت اور دفاع کے لیے ”مدد“ ہم فراہم کریں گے۔اس طرح نوآزاد ملک اس سازش کا شکار ہو جاتا ہے۔

ان کا آخری حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مجاہدینِ آزادی کو بطور دہشت گرد پیش کرتے ہیں۔اس سے قبل جو مسلح جدجہد اور تحریک ناکام ہو چکی ہوتی ہے اسے بنیاد بنا کر وہ انقلابی مسلح جدوجہد کو رد کرتے ہیں۔جب انقلابی گرفتار ہوتے ہیں تو انھیں ریڈیو اور پریس کے ذریعے یوں پیش کیا جاتا ہے کہ”محافظوں“ نے ”دہشت گردوں“ کو گرفتار کر لیا ہے۔جبکہ جو ہتھیار یا دیگر فوی سازوسامان ان کے ہاتھ لگتا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ روسی یا چینی ہے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ افریقی قوم پرست نہیں بلکہ بیرونی حکومت کے گماشتے ہیں۔

جب انقلابی گرفتار ہوتے ہیں تو عدالتوں میں نہ ان پر ملزمان کی حیثیت سے مقدمات چلائے جاتے ہیں اور نہ ہی انھیں جنگی قیدیوں کی حیثیت دی جاتی ہے بلکہ آخر میں یہ کہتے ہوئے انھیں سزائیں دی جاتی ہیں، گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے یا پھانسی دے دی جاتی ہے کہ انھوں نے اقبالِ جرم کر لیا تھا۔سامراج کی اس چال کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلح انقلابی تحریک کو اہمیت نہ ملے،دوسرا یہ کہ انقلابیوں میں مایوسی اور بددلی پھیلائی جائے۔

چے گویرا نے اس سامراجی حکمتِ عملی کو اس طرح بیان کیا ہے کہ”ان کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آزادی کی تحریک کو ابتدائی مراحل کے دوران ہی ختم کر دیا جائے تاکہ یہ عوام کے ساتھ مل کر ایک نہ ہوجائے۔“

سامراج یہ کہتا رہا ہے کہ افریقیوں میں انقلابی جنگ کی صلاحیت نہیں ہے اس حوالے سے وہ تین باتیں کرتا ہے۔
(1) نسل پرستی (2)ہمارا تاریخی پس منظر (3)کیڈرزاور نظریاتی راہنمائی کی کمی

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کوئی انقلابی پیدائشی جنگجو ہوتا ہے یا نہیں،مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ افریقہ ہی انقلابات کے لیے مناسب ہے یا افریقہ ہی انقلابی جنگ کے لیے موزوں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انقلابی جنگ ہی واحد کلید ہے جس کے ذریعے افریقہ کی مکمل آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔


 

بیرونی فوجی تیاری
FOREIGN MILITARY PREPAREDNESS

اپنے جارحانہ مقاصداور فوجی حکمتِ عملی کے حصول کے لیے سامراج نے دنیا کے مختلف جغرافیائی حصوں میں فوجی بلاک اور اتحادی بنائے ہیں۔افریقی انقلاب کو اس فوجی حکمتِ عملی کے سمجھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہماری انقلابی جدوجہد کی سمت درست ہے تو سامراج مخالف اور جدید نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد تقریباََ ساری دنیا میں لڑی جا سکتی ہے جہاں سامراج کسی بھی شکل میں موجود ہے۔

فوجی بلاک اور انقلاب دشمن تنظیمیں مندرجہ ذیل ہیں۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن 1949 NATO
اس میں امریکا،برطانیہ،فرانس،اٹلی،بیلجیم،ہالینڈ،لکسمبرگ،کینیڈا، آئرلینڈ،ناروے،ڈنمارک اور پرتگال شامل ہیں۔جبکہ 1951سے یونان، ترکی اور مغربی جرمنی بھی اس میں شامل ہو گئے۔
ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن 1959 CEATO
اس میں امریکا، برطانیہ،فرانس،نیوزی لینڈ،آسٹریلیا،فلپائن،تھائی لینڈ اور پاکستان شامل ہیں۔
1951 ANZUS
اس میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اورامریکا شامل ہیں یہ ”پئسفک معاہدے“ کے نام سے مشہور ہے۔
سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن 1959 CENTO
اس میں برطانیہ، ترکی،پاکستان،ایران 1955کے بغداد معاہدے کے تحت شامل ہوئے۔ 1959میں امریکا بھی ترکی،ایران اور پاکستان سے دوطرفہ جنگی معاہدے کر کے شامل ہوا۔
یہ سارا جنگی نظام جو فوجی بلاکوں میں اتحاد کی صورت میں قائم ہے اس کے ذریعے امریکی سامراج مغربی دنیا کا گرو گھنٹال ہے۔اس کا لاطینی امریکا اور ایشیا کے بعض علاقوں میں براہِ راست عمل دخل ہے اور یہ سب کچھ فوجی نیٹ ورک کے ذریعے کیا جاتا ہے جس میں 2200جنگی اڈے موجود ہیں اور ایک ملین فوجی ہمہ وقت جنگ کے لیے تیار ہیں۔

امریکا کی طرف سے دیگر ممالک میں مداخلت کے لیے مندرجہ ذیل گروپ تشکیل دیے گئے ہیں۔
پہلا گروپ GROUP ONE
یہ سوویت یونین کے خلاف مغربی یورپ، جنوبی افریقہ اور مڈل ایسٹ میں قائم ہے۔

دوسرا گروپ GROUP TWO
یہ گروپ چین کے خلاف پاکستان،جنوب مشرقی ایشیا اور پئسفک سمندر میں قائم ہے۔

تیسرا گروپ GROUP THREE
یہ گروپ لاطینی امریکا میں جاری انقلابی تحریکوں کے خلاف امریکی ریاستوں کی تنظیم کے ماتحت کام کر رہا ہے۔یہ پانامہ،برمودا اور پورٹوریکو میں قائم ہے۔

افریقہ میں اس وقت NATOکے رکن ممالک کے17ہوائی اڈے ہیں۔9سمندری اڈے بیرونی ممالک استعمال کرتے ہیں۔بیرونی فوجی وفد ہمہ وقت کینیا، مراکش، سینی گال، نائیجر، کیمرون، چاڈ، گبن اور آیوری کوسٹ میں موجود رہتے ہیں۔اس کے علاوہ جنوبی افریقہ میں راکٹ چھوڑنے کے تین مقامات اور نیو کلیئر تجربات کی جگہیں ہیں۔

ہماری افریقی مسلح جدوجہد کسی نہ کسی صورت میں سامرا ج کی فوجی حکمتِ عملی پر ضرب لگاتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے سامراج، آبادکاروں اور اقلیتوں کو طاقتور بنا کر ان کی حکومت قائم کرتا ہے جیسا انھوں نے روڈیشیا (موجودہ زمبابوے۔مترجم) اور شمالی افریقہ(موجودہ نمیبیا۔مترجم)میں کیا ہے۔

NATOکے قیام کے بعد 1954میں وارسا معاہدہ ہوا تاکہ سامراجی جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکے۔اس معاہدے میں سوویت یونین،بلغاریہ،ہنگری، جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک، پولینڈ، رومانیہ،چیکو سلواکیہ اور البانیا شامل ہیں۔اس معاہدے میں یہ طے ہوا کہ کسی بھی ایک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جائے گا۔اس معاہدے کے دو خاص نکات یہ ہیں۔

(1)ایک سیاسی ادارے کی تشکیل جو ایک دوسرے کے تعاون سے سیاسی فیصلے کرے اور مختلف میدانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرے۔
(2)مشترکہ فوجی مشقیں جن کا ہیڈ کوارٹر وارسا ہو گا۔

مشترکہ پان افریقی تنظیم کی ضرورت
THE NEED FOR PAN AFRICAN ORGINISATION

افریقہ کے متعدد ممالک اس وقت فوجی نقطہئ نظر سے کمزور ہیں،سامراج کی طرح ان کے مشترکہ فوجی پروگرام یکساں عمل میں نہیں ہیں۔یہ سب کچھ ”کُل افریقی عوامی انقلابی فوج“VOLUTONARY ARMY) ALL AFRICAN PEOPLES RE (کو افریقی سطح پر منظم کرنے کے بعد حل کیا جاسکتا ہے۔ہم میں فتح حاصل کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے کیونکہ افریقہ کے مظلوم عوام یہ طے کر چکے ہیں کہ وہ استحصال کے تمام طور طریقوں کو ختم کر کے اپنے مستقبل کا خود تعین کریں گے۔ افریقہ کی سطح پر اتنی طاقت منظم ہونے کے بعد دشمن کی کامیابی کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔