بلوچستان میں میڈیا کے جانبدارانہ کردار پر گزشتہ چند روز کے دوران دو آزادی پسند بلوچ مسلح تنطیموں کے بیانات سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے میڈیا کے غیرزمہ دارانہ اور جانبدارانہ کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے مقامی اور پاکستانی میڈیا سمیت بین الاقوامی میڈیا سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے حقیقی فرائض سر انجام دیں۔
دو اکتوبر کو بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے اپنے شائع کردہ بیان میں میڈیا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ” تمام انٹرنیشنل اور لوکل و پاکستانی میڈیا سرکاری موقف اور بیانیہ کو لیکر بلوچستان کی صورتحال کا غلط نقشہ پیش کرکے دنیا کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا برابر شریک ہیں۔ ہم پہلے بھی میڈیا کی بددیانتی کا ذکرکرکے اپیل کرچکے ہیں کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے بلوچستان کی بدترین صورتحال کو دنیا کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کریں”۔
گہرام بلوچ نے اپنے بیان میں تمام میڈیا ہاؤسز کو بیس دن کا موقع دیکر اپنا یکطرفہ رویہ نہ بدلنے والے اخبارات کی بلوچستان میں سرکولیشن بند کرانے کی دھمکی بھی دی ہے۔
دوسری جانب بلوچ مسلح تنطیم بلوچ لبریشن آرمی کے چھ اکتوبر کو شائع ہونے والے بیان میں میڈیا کے کردار کو مجرمانہ اور غفلت کا شکار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ “درحقیقت شروع دن سے ہی میڈیا کی بنیادیں بلوچستان میں ریاستی مفادات کے تحفظ و تشہیر کی بنیاد پر رکھے گئے تھے اور آزاد میڈیا کے تاثر سے اس مکروہ کردار کو چھپایا گیا لیکن ایک عرصے سے بالخصوص پچھلے دو سالوں سے بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت اور بلوچ نسل کشی پر میڈیا کا کردار ریاستی اداروں کے ہمنوائی میں ایک ریاستی ادارے کے طور پر ابھر کر سامنے آچکا ہے”۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے بی ایل ایف کے میڈیا کے حوالے سے اعلان کردہ موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جلداز جلد میڈیا بلوچستان میں اپنے موجودہ روش میں تبدیلی نہیں لاتی ہے تو ہم تمام بلوچ آزادی پسند تنظیموں سے ملکر میڈیا کے ریاستی کردار کے خلاف حکمت عملی ترتیب دینگے۔
یوں تو پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے قبرستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک جگہوں کی فہرست میں شامل ہے اور درجنوں بے باک و نڈر صحافیوں کو سچ سامنے لانے کے پاداش میں اپنی جانیں قربان کرنی پڑی ہیں لیکن بلوچستان میں صحافت کا معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے کہ صرف اس بات پر اکتفا کیا جائے کہ یہاں صحافت اس لئے محصور و محدود ہے کیوںکہ خفیہ ادارے کسی کو اجازت نہیں دیتے بلکہ سمجھنے والی بات یہاں یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے صحافتی فرائض کسی بھی دباؤ کے تحت سر انجام نہیں دے سکتا ہے تو جان کی خیر منا کران حساس معاملات سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے لیکن کئی ایسے انکشافات اور واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان میں میڈیا نہ صرف حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے بلکہ حقائق کو مسخ کر کے ان کی ایک بہت ہی گھناونی شکل میں پیش کر رہی ہے جس سے دنیا کوگمراہ کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جیسے کہ گزشتہ چند مہینوں ڈیرہ بگٹی، مکران بولان، کاہان و ہر نائی اور دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن میں عام آبادی پرفوج کے حملوں میں جو لوگ جابحق ہوئیں ان کو میڈیا نے دہشت گرد قراردیا جبکہ ان میں سے اکثریت خواتین اور بچے تھے یہاں تک کہ شیر خوار بچوں اور معزور و ضعیف افراد کو بھی دہشت گردی کے لقب سے نوازہ گیا ہے۔
بلوچستان میں آئے روز فوجی آپریشن، چھاپے اور گرفتاریوں کے بعد لاپتہ و مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن میڈیا کی جانب سے ان تمام معاملات کو کوریج دینے کے بجائے اس کے متضاد بیان کیا جاتا ہے اور بلوچستان کو پر امن علاقہ ظاہر کیا جاتا ہےاوربلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنوں و تنظیموں کو بھی میڈیا کی جانب سے دہشت گرد بتایا جا تا رہا ہے۔
ایک سابقہ مقامی صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹی بی پی کو بتایا ہے کہ انہوں نے اپنے پیشے کو خیر باد کر دیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اپنی مرضی سے کام کرنے کی کوئی آزادی نہیں تھی اور سچ بولنے یا حقائق کو سامنے لانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ جتنے بھی صحافی جو کے خفیہ اداروں کے حامی اور جانبدار نہیں تھے جو اپنے صحافتی فرائض بخوبی انجام دے رہے تھے یا دینا چاہتے تھے ان کو یاتو قتل کر دیا گیا یا اپنا کام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اوراسطرح ہر جگہ اپنے منظور نظرلوگوں کو سامنے لایا گیا۔
انہوں نے اپنے پیشے کو چھوڑنے پر سوال کے جواب میں بتایا کہ میں کسی بھی معاملے اور زمینی حقائق کے مطابق کچھ بھی شائع کرنے کے حق سے محروم تھا اور آخر میں تو یہ نوبت تھی کہ بلوچستان میں جو بھی واقعات رونما ہوتے تھیں، ہمیں اس خبر کو خفیہ اداروں کے ہدایات ملنے کے بعد ہی شائع یا نشر کرنے کی اجازت ملتا تھا اور میں نے اپنے پیشے سے اسطرح کی ہونے والی بے ایمانی سے دلبرداشتہ ہوکر استعفیٰ دیدیا۔
سیاسی اوراصل صحافتی حلقوں کا کہنا ہیکہ صحافت کے نام پر اب ریاستی پروپیگنڈہ اور آئی ایس پی آر کا موقف صرف مجبوری کے تحت شائع نہیں کیا جارہا بلکہ صحافتی صفوں میں ریاستی ایجنٹ جگہ بنا چکے ہیں اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مجبوری کو بہانہ بنا کربلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ کسی بھی طور پر صحافتی اقداروں کی مکمل نفی ہے۔
ایک بلوچ صحافی نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ مسلح تنظیموں کے بیانات نشر نہ کرنا قابلِ سمجھ ہے لیکن آپریشنز میں ہلاک ہونے والےشیرخوار بچوں کو دہشتگرد نہ صرف خبروں میں قرار دینا بلکہ اداریے لکھ کر ریاستی فورسز کو ان کاروائیوں پر داد دے کر ہیرو ثابت کرنا مجبوری کے کس زمرے میں آتی ہے؟