ثناء جیسے چھپے غدار
زہیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں اکثر و بیشتر دو تین طرح کے لوگ رہے ہیں ان میں ایک بڑا طبقہ درمیانہ سوچ رکھتا ہے یعنی جو نہ کھل کر ریاستی دہشتگردی اور بربریت پر لب کشائی کرتے ہیں اور نہ ہی بلوچستان بلوچ قومی تحریک کی کامیابیوں کا کھلا ذکر کرتے ہیں۔ عام الفاظ میں یہ لوگ تحریک کو دل سے سپورٹ کرتے ہیں یعنی آزادی چاہتے ہیں لیکن یہ جنگ اور سیاست کو اپنے اور اپنے خاندان کیلئے نقصاندہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ کھل کر آزادی کی سپورٹ کرنے سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے لیکن دل سے یہ سب آزادی کی خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کی قبضہ گریت سے آزاد حاصل کرے لیکن اس کے علاوہ ایک طبقہ ایسا ہے جو آزادی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کیا ہوا ہے، چاہے وہ ایک سیاسی کارکن ہو یا مسلح جہدکار، یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کے مستقبل اور قومی آزادی کیلئے سب کچھ قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، جس کی تازہ مثال ہمیں فدائی حملوں کی صورت میں ملتا ہے، جہاں پڑھے لکھے باشعور اور زندگی کی حقیقی معنی سے واقف بلوچ نوجوان اپنی جانوں کو خود بخوشی قربان کرتے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر زندہ رہوں گا تو ایک آزاد بلوچستان کا خواب دیکھ کر جہاں سارے بلوچ بھائی چارگی سے ایک خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں، جہاں وہ نہ پنجابیوں کے غلام ہیں اور نہ ہی کسی میر، سردار و وڑیرہ کے بلکہ ہر بندہ اپنی آزادی سے زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہی خواب لیئے ہوئے ہزاروں بلوچ فرزندان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گمشدگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، یہاں تک کے مائیں خود اپنے بچوں کو وطن کا جھنڈا یعنی دھرتی ماں کا چادر پہناتے ہوئے شہادت کیلئے بھیج رہے ہیں۔
لکھتے ہوئے یہ الفاظ شاید میرے لیئے آسان ہوں لیکن جس عظیم ماں نے یہ کام سرانجام دیا ہے، شاید اس کے احساسات اور جذبات کا اندازہ مجھ جیسا کمزور شخص تو بالکل نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی درندگی جبر وحشت اور ان نوجوانوں میں قوم اور وطن دوستی کا جذبہ ہے وہ انتہائی کمال کا ہے، شاید اگر میں یہ کہوں کہ دنیا میں اس جذبے سے بلوچ لڑ رہے ہیں، دنیا کے کسی بھی انقلابی تحریک میں لوگوں نے ان جذبات کے ساتھ دھرتی ماں کیلئے قربانی نہیں دی ہے۔ اس لیے تو نوشین قمبرانی کہتی ہیں کہ
زمین پر جتنے عاشق ہیں
بلوچستان کے بچے ہیں
ان عظیم اشخاص کے بعد ایک ایسا طبقہ آتا ہے جو غداروں کا طبقہ ہے، انہوں نے اپنا ضمیر، ایمان، اپنا سب کچھ کا سودا کیا ہے، ان کیلئے پیسہ، ان کا ایمان، ان کا ضمیر، ان کا سب کچھ ہے یہ اتنے بےشرم، بے حیا اور کم ظرف ہیں کہ یہ اپنی ماؤں اور بہنوں کے اغواء نما گرفتاری میں براہ راست شریک ہیں۔ ایک انسان اپنی ماں کا سودا کرنے پر راضی ہو جائے تو اس کی ضمیر اور ایمان کا فیصلہ آپ پڑھنے والے بہتر کر سکتے ہیں، ان میں سرفہرست نیشنل پارٹی والے اور بہت سے دیگر مخبر ہیں، جنہوں نے اپنا ایمان اور ضمیر بیچ دیا ہے، ان پر کوئی بات اثر نہیں کر سکتا کیونکہ دنیا کے ہر قوم میں غدار اور لالچی شخص ہوتے ہیں، جو پیسے کیلئے اپنی ماؤں کو، بہنوں کو بیچنے سے بھی شرم محسوس نہیں کر سکتے ہیں، اسی طرح یہ ایک طبقا بلوچ پر مسلط ہے، سرے عام اپنی غداری کا اعلان کرتے ہیں، جیسے کے سرفراز بگٹی جیسے لوگ جو آئی ایس آئی کے پالے ہوئے کتے ہیں ان کو بس پیسے سے غرض ہے۔ باقی قوم، وطن، زمین، عوام اور دیش اس کا ان کو غم نہیں ہے۔ ان جیسے لوگوں کو قوموں کی آزادی کے بعد سولی پر چھڑایا جاتا ہے تاکہ دنیا کے غداروں کیلئے ایک مثال قائم ہو تاکہ کوئی بھی شخص اپنے وطن سے غداری کرتے ہوئے شرم محسوس کرے، ان کیلئے لوگوں کا قتل عام گھروں کا جلانا لوگوں کو گمشدہ کرنا کوئی بات نہیں بلکہ یہ خود ریاست کو سپورٹ کرتے ہیں، ان کی مخبری کرتے ہیں کیونکہ پنجاب سے آنے والا شخص کسی سیاسی کارکن کے گھر کو نہیں جانتا اس کام میں مخبر ہی ریاست کا ساتھ دیتے ہیں۔
یہ بات ہوئی تین طبقوں کی جن کا ہر عام و خاص کو پتہ ہے لیکن ایک ایسا بھی طبقہ ہے جو منافق لوگوں کا ہے، یہ منافق لوگ ہیں، یہ ایک ہی ٹائم پر مختلف شکلیں بناتے ہیں، جیسے مثال لیتے ہیں ثناء بلوچ کا کل انہوں نے بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے ایک کامیاب کارروائی کے دوران بلوچ ماؤں اور بہنوں کو بےعزت کرنے والے ہماری دھرتی پر قبضہ جمانے والے گھروں کی لوٹ ماری کرنے والے ہمارے گاؤں پر بمباری کرنے والے چادر و چار دیواری کی پامالی میں شامل نوجوانوں کی قتل و غیرت گری جبری گمشدگی ماورائے عدالت قتل میں شریک جرم قابض پاکستان فوج کے ایک کیپٹن سمیت چار سپاہوں کو ہلاک کیا گیا، اس آپریشن کے بعد بلوچستان میں لوگوں کے اندر ایک خوشی کی لہر دوڑ اٹھی کہ قابض کو نقصان ہوا ہے تو وہی بلوچ سماج میں موجود چھپے غدار قوم دشمن ضمیر فروش اور چاپلوسوں نے اپنی چھپی شکل کو واضح کیا ان میں پاکستانی پارلیمنٹ میں بیٹھا بلوچوں کے حقوق کی بات کرنے والا اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ ظاہر کرنے والا ثناء بلوچ بھی شامل تھا بلوچ حلقوں میں بی این پی کیلئے پہلے سے ہی عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک باقاعدہ چاپلوسوں کا پارٹی ہے کیونکہ ان میں شامل اکثر لوگ بلوچ اور بلوچوں کی بات کرتے ہیں اور پاکستان کا بلوچستان کے قبضے کو غلط سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں آزادی کے جدوجہد کو سپورٹ بھی کرتے ہیں اور بلوچ مزاحمت کاروں کے حمایتی ہیں لیکن اس میں موجود اس کے نام نہاد لیڈر جو ایک ہی ٹائم دو پتے کھیلتے آ رہے ہیں، اب صاف صاف قوم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
ایک جانب قابض فوج کے اہلکار ہیں جو ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزت کو تار تار کرنے میں سب سے آگے ہیں جبکہ دوسرے طرف بلوچ مزاحمت کار جنہوں نے اپنا سب کچھ اپنا ایمان، اپنا گھر، اپنا ضمیر سب کچھ قوم کو دیا ہے اور قوم کی خاطر نہ بلکہ موت بلکہ بھوک افلاس اور خواری برداشت کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو پہاڑوں میں گذارتے ہیں لیکن اس نامراد اور چھپے غدار ثناء بلوچ کیلئے ایک بلوچ سرمچار دہشتگرد ہوتا ہے اور وہ جس کا ہاتھ ہماری ننگ و ناموس کو پامال کرنے میں شامل ہو جو آئے دن ہمارے گھروں پر چڑھائی کرتے ہوئے لوٹ ماری، بدتمیزی، ماؤں اور بہنوں پر تشدد کرتے ہیں، ہمارے اوپر قابض ہیں، پنجاب سے یہاں آکر ہماری ماؤں اور بہنوں کی بےعزتی کرتے ہوئے ہمارے وسائل لے جاتے ہیں اور بدلے میں ہمیں لاش، مسخ شدہ لاشیں دے دیتے ہیں لیکن اس چھپے قوم دشمن، ضمیر فروش، وطن دشمن، چند پیسوں کے حوس میں اپنی زمین کے سودے میں شامل ماں اور بہنوں کی تذلیل(اس ٹوئٹ کے بعد ثناء بھی ہمارے ماؤں اور بہنوں کے تذلیل میں براہ راست شریک ہے) میں شامل بی این پی کے ثناء بلوچ کو یہ محب وطن اور ان کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔
آج یہ سب بی این پی والوں کیلئے شرم کا مقام ہے بلکہ ڈوپ مرنے کا مقام ہے جو اپنے قوم سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی باشعور قوم دوست، زمین دوست، بلوچ اپنےدھرتی کے ان سپوتوں کیلئے غلط الفاظ استعمال نہیں کر سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ اپنا ایمان تک اپنی دھرتی کیلئے قربان کیا ہے، ثناء جیسے لوگ جنہوں نے محلات کے بغیر زندگی نہیں دیکھی ہے یہ کیا جانیں وطن کا درد مٹھی کی محبت کیا ہوتی ہے، چار اچھے اور جذباتی تقریر کرنے سے اگر آپ سمجھتے ہو آپ کے ہر حرکت اور قوم دشمنی کو قوم بھول جائے گا تو یہ بے وقوفی ہے آج کے بعد ثناء جیسے چاپلوس اور چھے غدار بھی قوم دشمن کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کیلئے جو کل سمجھتے تھے کہ بی این پی قومی آجوئی کی بات کرے گا ان کے لیئے ثناء کے یہ الفاظ کافی ہونے چاہیئے۔
میں بلوچ قوم کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان جیسے چھپے غداروں کی حقیقی شکل کو سمجھنے میں دیر نہ کریں، غدار تو یہ بھی ہیں وطن اور زمین کے لیکن یہ اپنی غداری قوم دشمنی اور ضمیر فروشی چند جذباتی تقریر سے دھونے کی کوشش کریں گے پھر لیکن آج کے بعد ثناء کا شکل قوم کے سامنے آ چکا ہے، ان غداروں کو سرے عام کرنا چاہیئے کیونکہ یہ چھپے غدار ہیں، یہ ایک جانب اپنے آپ کو قوم دوست ظاہر کرتے ہیں اور عام عوام سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن پیچھے ان کا بھی ہاتھ برابر بلوچ نسل کشی میں شامل ہے جبکہ ان کے یہ حرکات سے اب ظاہر ہو رہا ہے کہ آئیند آنے والے دنوں میں یہ حضرات بھی بلوچستان میں حکومت بنانے کی کوشش کریں گے اور پھر براہ راست نیشنل پارٹی کی طرح قوم دشمنی اور غداری میں شریک ہونگے جس کا اشارہ ثناء بلوچ نے اپنے ٹوئٹ میں کیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔