پتہ ہے جن کا، وہ لاپتہ کیسے؟ – برزکوہی

342

پتہ ہے جن کا، وہ لاپتہ کیسے؟

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جو 19 برسوں سے آج تک بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین، بچوں کو اٹھاکر غائب کررہے ہیں، لے جانے والے، ساتھ دینے والے، اٹھانے والے، ایپکس کمیٹی میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والے، ٹارچر و تشدد کرنے والے، مسخ کرکے لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے والے، اجتماعی قبروں میں دفنانے والے، سڑک کنارے گولیوں سے چھلنی کرنے والے، دس دس سال بعد کچھ کو بازیاب کرنے والے، سب کے سب یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ بلوچ لاپتہ ہیں یعنی ان کا کوئی اتاپتہ نہیں ہے۔ کیا ڈاکٹر مالک، محممود خان اچکزئی، آصف زرداری، نواز شریف، فضل الرحمان، مریم نواز، بلاول بھٹو، اسلم رئیسانی، لشکری رئیسانی، ہمایوں کرد، ظفر زہری، ثناء ذہری، ذولفقار مگسی، قادر چنال وغیرہ وغیرہ جب خود اقتدار میں تھے ان ہی کے دور اقتدار میں بلوچ غائب نہیں ہورہے تھے اور ان کے لاشیں نہیں گررہے تھے؟ کیا ان کو پتہ نہیں تھا کہ کون کہاں سے اٹھایا گیا، کہاں پھینکا گیا، کہاں رکھا گیا؟ کیا وہ خود اس گناہ کبیرہ کے اہم مجرم نہیں ہیں؟ اگر نہیں ہیں؟ تو کیسے؟ ان میں کسی ایک نے کوئی ایک ایسا بیان اس وقت دیا کہ بھائی بلوچوں کو کیوں اور کہاں غائب کرتے ہو؟

پھر آج کس شرم سے یہ کہتے ہیں کہ بلوچ لاپتہ ہیں، ارے بھائی آپ لوگوں کو پتہ تھا اور پتہ ہے کہ بلوچ کہاں ہیں، پھر کیسے لاپتہ ہیں؟

گذشتہ روز سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور ماما قدیر سے ملاقات کی، وہی بات ہوئی کہ چور سے کہو چوری کر اور مالک کو بولو ہوشیار۔

فرض کریں، ان ملوث و متعلقہ اشخاص، پارٹیوں کو اب اقتدار کے بعد ذرا بھی بلوچیت، انسانیت، اخلاقیات کا احساس ہوچکا ہے، ان کا مردہ ضمیر زندہ ہوچکا ہے تو پھر یہ براہ راست دوٹوک الفاظ میں دنیا کے سامنے بتا دیں کہ 19 سال سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ نہیں ہیں، ان کا پتہ ہمیں معلوم ہے، وہ پاکستان کے خفیہ ٹارچر سیلوں میں بند ہیں اور خفیہ ٹارچر سیل ان ان علاقوں اور ان جگہوں پر موجود ہیں۔ ان کو اس طریقے سے اور اس سطح کا ٹارچر کررہے ہیں اور پھر ان کو مسخ کرکے پھینک دیتے ہیں اور یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں ہے بلکہ پاکستانی فوج اور پاکستان کے خفیہ ادارے ایم آئی اور آئی ایس آئی کے ساتھ ان کے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے بندے ہیں۔

اگر بلوچستان اور بلوچ قوم کے ساتھ ذرا بھی ہمدردی اور خلوص ہے تو یہ موقف اپنانا ہوگا اور پیش کرنا ہوگا، نہیں تو ووٹ بینک کو بڑھانے، اپنی سیاسی ساکھ و دوکان کو بچانے اور چمکانے کی خاطر لاپتہ افراد کے سنگین انسانی المیے و مسئلے کو پارٹی و پارلیمانی سیاست کا صرف ایشو بناکر اصل میں بلوچ اور بلوچستان کے ساتھ ہمدردی اور احساس نہیں بلکہ بدترین قسم کی بلوچوں کے ساتھ مذاق ہے۔

کیا جب تک بلوچستان پر پاکستان کا قبضہ ہے اور قبضے کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی حصول کے خاطر جنگ جاری و ساری ہے اس وقت تک یا اس سے پہلے بلوچ لاپتہ افراد کا سنگین انسانی مسئلہ حل ہوگا؟

قومی غلامی مرض کینسر ہے، اگر کوئی ڈاکٹر کینسر کو چھوڑ کر کینسر کی وجہ سے پیدا ہونے والے سردرد اور بخار کا علاج شروع کردے کیا ممکن ہوگا کینسر سے چھٹکارے سے پہلے بخار و درد سر ختم ہو؟

اگر بی این پی کے سربراہ اختر مینگل واقعی بلوچ لاپتہ افراد کے سنگین انسانی مسئلے کے حوالے سے سنجیدہ اور مخلص ہے، خدانخواستہ ووٹ بینک بڑھانے، بلیک میلنگ والا قصہ نہیں تو پھر اخترمینگل صاحب کو کوشش کرنا چاہیئے کہ وہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، دیگر مہذب دنیا کی طرف رجوع کرے، متوجہ ان کو کیا جائے، ان سے اپیل اور درخواست کرے، ان کو 6 نکات پیش کرے، بجائے مجرم کو بولے کہ مجرم کو پکڑو۔

دوسری طرف اگر آج کچھ بلوچوں کو پاکستانی فوجی خفیہ طور پر 10 سال، 5 سال یا 2 سال سزا دلاکر آج بدست اخترمینگل ان کو رہا کررہا ہے تو اخترمینگل کے ذمہ داری ہے کہ ان کو علاقائی اور عالمی میڈیا کے سامنے لائے اور پیش کرے اور سزا کاٹنے والے اپنی زبان آپ دنیا کو بتا دیں کہ ہمارے اوپر پاکستانی فوج نے کس طرح اور کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ بجائے رہا ہونے والوں کو خاموش رہنے کی تلقین اور نصیحت کرنے کے۔ یہ پاکستان کے جرائم کو دانستہ طور پر چھپانے کے مترادف ہوگا۔ یہی پاکستان چاہتا ہے، ایسا نہیں اخترمینگل سمیت کچھ حلقوں کو خوش کرنا، ساتھ ساتھ ان کو دنیا کے سامنے اپنی سنگین جرائم کو چھپانے کی ذمہ داری بھی سونپنا۔

دس دس سال بے گناہ بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین سے اٹھاکر غائب کرنا بدترین ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار کرکے ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج کرنا، سلوپوائزن دلانا اور پھر بھی خفیہ پاکستانی فوجی کورٹ کے ذریعے سزا کاٹنا اور سزا پورا ہونے کے بعد رہا کرنا، کیا عالمی و انسانی قوانین کی مکمل خلاف ورزی نہیں؟ تو پھر بجائے شکریہ اور مبارک باد کے ان سنگین خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے بطور دلیل اور بطور ثبوت پیش کرنا بلوچ اور بلوچستان کے ساتھ درد، احساس اور مخلصی نہیں؟

اگر خوف و لالچ کے زیرسائے یہ ممکن نہیں تو یاد رکھا جائے کہ ایسا کرنے سے 5 خاندان یا گھر خوش ہونگے، اس کے بدلے 50 واپس پریشانی، تکلیف اور کوفت کا شکار ہونگے، اس طرح یہ سنگین انسانی مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں بلکہ یہ دن بہ دن مزید گمبھیرہوتا جائے گا۔ پاکستان کی خود پیدا کردہ انسانی مسئلے اور بحران کو پاکستان کی طرف سے حل کرنے کے بجائے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عالمی و انسانی حقوق کی تنظیموں کا براہ راست مداخلت نہ ہو اس وقت تک اس انسانی مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے، اس حوالے سے لازماً ایشو پالٹیکس سے ہٹ کر غیر روایتی اور موثر طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔

بلوچ قوم کو یہ بات سمجھنا ہوگا کہ وہ اس اکیسویں صدی میں اس طرح جلد متاثر نہ ہو بلکہ یہ پہچان لے اور تمیز کرے کہ کچھ ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑک رہے ہیں، لاشعوری میں اگر ہم نمک اور مرہم کے فرق کو سمجھ نہیں پارہے ہیں تو تاریخ میں ہم نالائق اور بے وقوف قوم کی حیثیت سے ضرور یاد ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔