‎بلوچستان میں میڈیا کے منفی کردار نے انسانی حقوق کی پامالیوں کو اوجھل کردیا ہے – بی ایچ آر او

211

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے رواں سال بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کردی۔

انسانی حقوق کی تنظیم بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیمپ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں، میڈیا کے کردار اور دیگر مسائل کے حوالے سے پریس کانفرس کی گئی۔ اس موقعے پر بی ایچ آر او کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ سمیت دیگر افراد موجود تھے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر میڈیا کی خاموشی نے انسانی المیہ کو نہ صرف جنم دیا ہے بلکہ اسے مزید تقویت فراہم کی ہیں، میڈیا مسلسل جانبداری کا مظاہرہ کرکے مزید انسانی المیوں کے لئے راہ ہموار کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔

‎ریاست کے ایک ذمہ دار ستون ہونے کے باوجود میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا ہے جو اس کے فرائض میں شامل ہیں بلکہ ہمیشہ اپنے فرائض سے غفلت برتنے کی جدوجہد کی گئی۔

انہوں نے کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں کی وجہ سے مجبوراً لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔ متعدد مسائل سے دو چار بلوچستان بے بسی و لاچاری کا منظر پیش کررہی ہیں لیکن مختلف طبقہ فکر سمیت میڈیا سیلف سینسر شپ کا شکار ہو کر خاموش ہے اور وہ کردار جو بلوچستان میں لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار و قتل کررہے ہیں آزادانہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پریس کانفرنس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے اعداد شمار بتاتے ہوئے کہا گیا کہ جنوری دو ہزار انیس سے لیکر جون کے مہینے تک سکیورٹی فورسز کی مختلف علاقوں سے کاروائیوں میں 371 افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا جن میں ضیعف العمر، بچے جوان خواتین بھی شامل تھی جنہیں گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ ان چھ مہینوں کے اندر مختلف کاروائیوں میں 158افراد قتل کئے گئے۔ سکیورٹی فورسز کی کاروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اندر سول و پارلیمانی ادارے مکمل سکیورٹی فورسز کے تابع ہے حالانکہ بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ گذشتہ دس سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے پر امن آئینی و قانونی احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن فوجی آپریشنوں، ماورائے عدالت گرفتاری و قتل عام کے خلاف بھرپور احتجاج کررہی ہیں لیکن طاقتور اداروں کی جانب سے ہمیشہ احتجاجوں کو روکنے کی کوشش کی جاچکی ہیں۔

رہنماوں نے کہا کہ آج ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے بلوچستان میں چھ مہینوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احوال پیش کرنے آئے ہیں تاکہ آپ ہماری آواز کو ان اداروں تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں جو انسانی حقوق کا نام لیوا ہے، جو پارلیمنٹ اور جمہوریت کے دعویدار ہے تاکہ وہ ہماری آواز سن کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اقدامات کو حتمی شکل دیکر بلوچستان کے عوام کی بے بسی و لاچاری کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے مزید کہا کہ جنوری دو ہزار انیس کو سیکورٹی فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں پنجگور، گوادر، سبّی، کیچ اور آواران سے 77 افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جبکہ اہلخانہ اور وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی جدوجہد سے مجبور ہوکر ستر افراد کو بازیاب کیا گیا جبکہ ان کاروائیوں کے نتیجے میں اٹھارہ افراد قتل کیئے گئے۔ ماہ جنوری کی آٹھ تاریخ کو دشت کے علاقے سے اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی جن کی شناخت کے لئے اہلخانہ نے ڈی این اے کا مطالبہ بھی کیا لیکن حکومت کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے متعلقہ لاشوں کی شناخت ممکن نہ ہوسکی۔ میڈیا سیلف سینسر کی وجہ سے دیگر چھبیس اضلاع سے کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی۔

‎فروری دو ہزار انیس کو ڈیرہ بگٹی، آواران، کیچ، چاغی، خضدار اور گوادر سے چھیالیس افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا جبکہ مختلف علاقوں سے سترہ افراد کے قتل کے واقعات بھی سامنے آئے اور اس دوران 36 افراد بازیاب ہوئے جن میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو دو تین برسوں سے لاپتہ ہوئے تھے۔ ماہ فروری میں بھی میڈیا کی جانبدارانہ پالیسیوں کی وجہ سے کئی علاقوں تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی۔

‎مارچ کے مہینے میں بھی بلوچستان کے مختلف علاقے آپریشنوں کی زد میں رہے، گوادر، پنجگور، لسبیلہ اور و اشک سے ساٹھ افراد ماورائے عدالت گرفتار ہوئے، مختلف واقعات میں پندرہ افراد قتل ہوئے جبکہ سترہ مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔ ستائیں اضلاع میں معلومات تک رسائی حاصل نہ ہوسکی جبکہ مارچ کے مہینے میں سکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں سے درجنوں بچوں اور خواتین کو لاپتہ کردیا۔ خواتین کو لاپتہ کرنے میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بھی شامل تھے یہ دو ہزار سترہ کے واقعات کا تسلسل ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کو لاپتہ کرکے آرمی کیمپوں میں منتقل کردیا۔

‎ماہ اپریل دو ہزار انیس کو سکیورٹی اداروں کی کاروائی کی وجہ سے انچاس افراد ماورائے عدالت گرفتار کیئے گئے جبکہ چودہ افراد کے قتل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ناممکن رسائی کے باعث معلومات نہ مل سکی۔ رواں مہینے عورتوں اور بچوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا جہاں سکیورٹی فورسز نے نصیر آباد سے پانچ خواتین اور چار بچوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جن کی شناخت ڈانڈو رطا بگٹی، شوزان شہیک بگٹی، بوجاری بی بی شہیک، پاٹی کریم بگٹی، جمیل کریم، 6 سالہ بٹے خان شہیک زرگل شہیک، تین سالہ آمینہ بی بی شہیک اور نور بانک شہیک کے ناموں سے ہوئی۔

‎مئی دو ہزار انیس میں بھی بلوچستان ماورائے عدالت گرفتاریوں کی زد میں رہا۔ بی ایچ آر او اور ایچ آر سی بی کو درجنوں انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات موصول ہوئے۔ مہینے بھر میں سیکورٹی اداروں نے ستر افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کیا جبکہ تفتیش کے بعد آٹھ افراد کو چھوڑ دیا گیا لیکن 62 افراد اب بھی لاپتہ ہے جن کے بارے میں تا حال کوئی اطلاع نہیں۔

ماہ جون میں بھی سکیورٹی اداروں کی کاروائیاں معمول کے مطابق جاری رہی۔ مختلف آپریشن اور واقعات میں 59 افراد لاپتہ کیئے گئے جبکہ 21 افراد کو ماورائے عدالت قتل بھی کیا گیا جو انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا شاخسانہ ہے۔

بی ایچ او رہنما نے کہا کہ بلوچستان گذشتہ ستر سالوں سے یہ جنگی منظر نامہ پیش کرتی آرہی ہیں لیکن گذشتہ واقعات کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی کاروائیوں میں شدت پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہیں جہاں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور سکیورٹی کاروائیوں نے بلوچ عوام کے لئے بلوچستان کو نو گو ایریا میں تبدیل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مجبور ہوکر لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی سعی کرتے ہیں لیکن وہاں بھی انہیں چھین سے نہیں رہنے دیا جاتا لیکن ان تمام واقعات کی رپورٹس میڈیا میں نہیں چلائی جاتی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کے سامنے میڈیا کے نمائندوں نے چھپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ میڈیا کی غیر جانب داری، حقائق سے پردہ پوشی اور منفی کردار کی وجہ سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے اوجھل کردیا ہے جو انسانی المیے کو جنم دینے کا باعث ہے۔ آپ صحافی حضرات سے گذارش ہے کہ اس مقدس پیشے کی لاج رکھتے ہوئے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں اور بلوچستان کے واقعات کو کوریج دیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے لایا جاسکے۔

صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے حکومت پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان اور دیگر اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ سکیورٹی فورسز جو لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہے انہیں آئین و قانون کا پابند بنا کر بلوچستان کے عوام کو فوجی آپریشنوں، ماورائے عدالت گرفتاری اور ماورائے عدالت قتل عام سے محفوظ بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی فرد کو گرفتار کرلیتے ہیں تو آئین و قانون کے مطابق انہیں عدالتوں میں پیش کریں یوں بغیر کسی ثبوت کے دس دس سالوں تک لاپتہ کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام کے لئے ہر طبقہ فکر کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان میں بلوچ اور دیگر اقوام بے خوف ہو کر اپنی زندگی گزار سکیں۔