کوئٹہ: سڑکوں پر میڈیکل کلاسز کا پانچواں روز

208

میڈیکل طلبہ سڑک پر کلاسز لینے سمیت سوشل میڈیا میں مہم چلاکر مسئلے کو اجاگر کررہے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق میڈیکل کالجوں کے طلبہ نے پانچویں روز بھی سڑک پر کلاسز لینا جاری رکھا۔

احتجاجی کلاسز بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں لیے جارہے ہیں جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اس احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ پانچویں روز بی ایس اے سی کے زونل وائس صدر ڈاکٹر زکیہ بلوچ نے طلبہ کو لیکچر دیئے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے سابق مرکزی وائس چیئرمین اور سابق سیکرٹری جنرل غنی بلوچ نے ٹی بی پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہا ہے، نہ حکومتی ذمہ داران اور نہ ہی بولان میڈیکل سمیت محکمہ صحت کی جانب سے اس مسئلے کی حل کی جانب توجہ دی جارہی ہے۔

غنی بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ طلبہ کی جانب سے سڑکوں پر کلاسز کا سلسلہ جاری ہے لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پریس کلب میں بیٹھے صحافی، اینکر پرسن اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے بھی طلبہ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ صرف حکومتی ترجمان لیاقت شاہوانی اور بولان میڈیکل کالج کے پرنسل شبیر لہڑی نے کیمپ کا دورہ کرکے دو دن میں مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی، لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ، جس کے باعث طلبہ میں تشویش بڑھ رہی ہے۔

دریں اثناء اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر طلبہ کی جانب سے ایک کمپئین چلائی جارہی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔

پسنی سے تعلق رکھنے والے طالب علم بیبگر یوسف نے اس حوالے سے لکھا کہ لگتا ہے اب ان طلبہ کو بھی گوادر کے بجلی کے مسئلے کی طرح کوئٹہ میں جیل بھرو تحریک لانا چاہئے، پریس کلب کے سامنے پندرہ دن گزرنے کے باوجود بھی کچھ اچھا دیکھنے کو نہیں آیا۔

ہم نے غنی بلوچ سے سوشل میڈیا کمپئین کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ریاست کا ایک ستون سمجھا جاتا ہے لیکن بلوچستان کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے لہٰذا طلبہ کے پاس سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز حکمرانوں اور تجزیہ نگاروں، صحافیوں اور پوری دنیا تک پہنچا سکتے ہیں اب یہی ایک امید ہے کہ شاید حکمران طلبہ کی آواز سن سکیں۔

اسی حوالے سے انجینئر صلاح الدین نے لکھا کہ اگر ہم باشعور قوم ہوتے تو ہمارے حکمران بجائے سینٹ چیئرمین کے کرسی بچانے کے پہلے PMDC کے لئے روانہ ہوتے اور ہر وہ قدم اٹھاتے جس سے ہمارے طلباء سڑکوں پر نہ آتے۔

واضح رہے یہ طلبہ بلوچستان کے مکران، جھالاوان اور لورالائی کے میڈیکل کالجوں میں حتمی فہرست جاری نہ کرنے اور کلاسوں کا آغاز نہ کرنے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

ٹی بی پی نمائندے نے بی ایس اے سی کے جنرل سیکرٹری اشفاق بلوچ سے ان کے مطالبات پورے نہ ہونے پر آئندہ کے لائحہ عمل کا پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ حل نہ ہونے پر بلوچستان اسمبلی کے کلاسز کے آغاز اور عدالت میں کیسز درج کرنے پر غور کرینگے۔

طلبہ کے مطابق مذکورہ تین میڈیکل کالجوں کے فہرست اس بنیاد پر روکھے گئے کہ یہ پی ایم ڈی سی سے رجیسٹر نہیں ہیں جبکہ تینوں میڈیکل کالجوں کے داخلوں کا اعلان ہوا، فارم جمع ہوئے اور فروری میں ٹیسٹ بھی ہوچکے ہیں۔