خود کو بدلنے کیلئے خود میں انقلاب لانا ہوگا
تحریر: بلوچ خان
دی بلوچستان پوسٹ
آج تک میں سوچتا آرہا تھا کہ صرف ہم بلوچ ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے سے دستبردار ہیں۔ لیکن میرے مشاہدے سے مجھے یہ لگتا ہے کہ ہر انسان اسی صورتحال سے گذر رہا ہے۔ عالمی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے مقاصد اور اغراض میں نام نہاد ہیں۔ دنیا میں جو ظلم و ستم اور قتل و غارت کا سلسلہ ہے، اس کی روک و اختتام کیلۓ آج تک نہ کسی نے کوئی قدم اٹھایا ہے اور نہ ہی لینے کا امکان ہے کیونکہ ظالم اور قاتل، جو اپنے برے اراردوں اور مقاصد میں ہر وقت کامیاب رہتے ہیں ان کو چھوٹ اور آزادی ہے۔ یعنی ان کو اختیار ہے کہ وہ ظلم و ستم کریں لیکن اگر کوٸی اپنے حق و حقوق کیلٸے لڑے وہ گنہگار اور مجرم ہے۔
حالیہ دنوں علی حیدر نام کا ایک بچہ جس کی عمر تقریباً 15 یا 16 سال کے درمیان ہوگا، اپنے پہلے سے ہی لاپتہ باپ رمضان بلوچ کی بازیابی کیلٸے ہمہ وقت برسرپیکار تھے، انہوں نے کوٸٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ میں مختلف پرخطر مصائب کا سامنا کیا، بعد میں وہ خود کچھ دن لاپتہ رہنے کے بعد بازیاب ہوئے۔ یاد رہے علی حیدر تو بازیاب ہو گیا لیکن ہزاروں بلوچ اور بھی لاپتہ ہیں اور کٸ شہید کیئے گۓ ہیں، ان کے لیئے کیوں کوٸی پرعزم اور پرجوش اپیل اور احتجاج نہیں ہوا ہے؟ آج تک، نہ عالمی تنظیموں کی جانب سے اور نہ ہی ہمارے اپنی قوم کی جانب سے۔ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ عالمی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پہ کیوں غور نہیں کر رہے اور نہ ہی علی حیدر سمیت ہزاروں بلوچ افراد کو لاپتہ کرنے کے بعد بے رحمی سے تشدد کر کے پھر مار پھینک دینے والوں پر الزام عاٸد کر رہے ہیں، جبکہ ان کو غالباً معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ آخرکار بلوچوں کو اٹھانے کے بعد پھر مار کر پھینک دینے والوں کے خلاف ان تنظیمیوں کی جانب سے کیوں کوٸی کارواٸی نہیں؟ آیا یہ اپنے مقاصد میں نام نہاد ہیں یا ایسی کارواٸی اور مجرم کو مجرم قرار دینے سے یہ قاصر ہیں؟
بلوچ اکثریت اپنی نسل کشی اور غلامی سے بے خبر تو ہیں لیکن یہ بات بھی ان کے سمجھ میں نہیں آتا اور نہ ہی احساس ہوتا ہے کہ یہ لاپتہ کرنے اور مار پھینک دینے کا سلسلہ ہی بلوچ نسل کشی کا ذریعہ ہے۔ اور اس سلسلے کو ختم کرنے یا روکنے کیلٸے نہ ہی ہم بلوچ متحد ہو کر کوٸی قدم اٹھاتے ہیں نا احتجاج کرتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے؛ جب تک بلوچ قوم ایسی صورتحال سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے متحد و یکجاہ ہوکر جدوجہد نہیں کرتے، تب تک ہر کوٸی اپنے لاپتہ ہونے کے ڈر و خوف میں مبتلا رہےگا۔ تو کیوں نہ ہم بلوچ وہ راستہ ڈھونڈیں جس سے ہم ایک انقلاب لاسکیں، ایک طاقت بنیں تاکہ جو قابض و دشمن ہے وہ اپنی طاقت و زور میں کمزور رہے اور جب بھی وہ کسی کو لاپتہ کرنے کےلیئے آۓ تو دوسرے گھر والے اپنے گھروں میں چھپنے کے بجائے محلے کے سارے لوگ، خاص طورپر ہماری عورتیں باہر نکل کر ان سے ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اس شخص کو لاپتہ ہونے سے بچاٸیں۔ اسی طرح بازاروں اور دوسری ایسی جگہوں پہ بھی کسی بلوچ کو لاپتہ ہونے سے بچانے کیلۓ مزاحمت کریں۔ اس طرح نہ صرف ہماری بلوچ قوم لاپتہ ہونے اور دشمن کی اذیت گاہوں میں تشدد سے بچیں گے بلکہ ہمارے خطے میں یہ سلسلہ بھی جلد ختم ہو جائےگا۔ یا تو ہم بزدل بن کر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا دیکھیں جس طرح ہمارے اوپر چلتا آرہا ہے جو کل کو آخرکار ہماری نسل کشی کا باعث ہوگا۔
عالمی تنظیموں کی جانب سے مدد اور ساتھ کے توقعات و امکانات تو ”کوٸی نہیں“ کے برابر ہیں، تو کیوں نہ ہم (بلوچ قوم) خود ہی متحد ہونے کا سوچ اپنے اندر پیدا کریں اور اپنے اوپر عاٸد سارے قابل مذمت و اعتراض حالات کو ختم کرنے کیلۓ مندرجہ بالا طریقہ و راستہ یا اس سے بہتر طریقہ نکال کر اختیار کریں تاکہ ہم اپنی قوم کی حفاظت اور اس کی آزادی و خشحالی کے لیے خود اپنا کردار ادا کریں، دوسروں سے امید و توقع رکھنے کا خیال اپنے اندر سے نکال لیں، کیوںکہ اگر بلوچ نسل کشی اور لاپتہ کرنے اور مار پھینک دینے کے سلسلے کے خاتمے و روک کیلۓ کسی عالمی تنظیم، ملک یا کسی فرد کی جانب سے کچھ ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا۔ یقیناً یہ سلسلہ ہماری نسل کشی کے ختم ہونے تک رساٸی لے کر دم لیگا، جو یقیناً دشمن کا مقصد و ارادہ ہے۔
لکھنے والے ایسے میری طرح بہت ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہم صرف لکھتے کیوں ہیں، جبکہ کبھی کبھی یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوتا ہے کہ آج کل ہماری قوم میں کافی حد تک شعور آچکا ہے، لیکن پھر دکھ اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہمیں جو عملی طورپر کرنا چاہیئے وہ کرنے سے ہم قاصر اور ڈرپوک ہیں۔ اور قاصر صرف ہم قابض و دشمن کے ڈر سے بنے ہیں۔ تو کیوں نہ ہم وہ دہشت اپنے اندر سے نکالنے کیلۓ کوٸی ایسا طریقہ و راستہ اپناٸیں اور اس پر عمل کریں، جس سے الٹا دشمن کو ہم سے ڈر و خوف ہو جائے، اور ہم اس پر غالب آجاٸیں۔ اور وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کرنے اور اس کو غلام بنانے کی حکمت عملیوں سے باز آجائے، بلکہ آخرکار یہاں(بلوچ سر زمین) سے نکلنے پر مجبور ہو جائے۔
ڈر و دہشت ہر انسان میں ہوتا ہے لیکن کسی چیز کو پانے کے لیۓ اس ڈر کا سامنا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، تب جاکر وہ چیز حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اوپر مسلط تمام حالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلۓ کسی بھی طرح کے ڈر کا سامنا کرنا ہوگا۔
عالمی تنظیموں سمیت پوری دنیا کو معلوم ہے کہ بلوچ نسل کشی کے پیچے کس کا ہاتھ ہے۔ بلوچ قوم کو لاپتہ کر کے اپنے اذیت گاہوں میں ناقابل برداشت اذیت دینے کے بعد مار کر گمنام جگہوں میں پھینک دینے والا کون ہے، یہ پوری دنیا کو معلوم ہے تو پھر آج تک ان کے خلاف کیوں کسی نے کوٸی عملی کارواٸی نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کی بلوچوں کے خلاف ایسے کرتوتوں کو عالمی سطح پر پیش کیا گیا، اس کا مطلب جہاں دنیا اور عالمی و انسانی حقوق کی تنظیموں کا راستہ آسان ہوتا ہے اور ان کو جہاں فاٸدہ حاصل ہوتا ہے، وہ صرف وہی آواز اٹھاتے ہیں اور صرف اپنا ہی کام چلاتے ہیں، دوسروں پہ کیا گذر رہا ہوتا ہے، ان کو کچھ پرواہ نہیں۔ تو کیوں نہ ہم خود اپنے اوپر ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کریں جو ہمارے ساتھ کٸی سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔ اور اپنے آپ کو ایک متحد اور آزاد قوم بناٸیں۔
I am not enough knowledgeable to stimulate, motivate or teach my Nation better than I have done so far in the following piece of Urdu writing. Therefore, if you figure out any ridiculousness or any mistake or wrong saying in the written piece, I’m humble enough to apologize.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔