ایک اور حمل و جیئند – برزکوہی

366

ایک اور حمل و جیئند

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

واقعی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے اور زندہ بھی کرتی ہے، جب کوئی قوم زندہ ہو تو تاریخ بھی انہی زندہ قوموں کی بن جاتی ہے اور زندہ قوم تاریخ بن جاتے ہیں۔ ایک بار پھر کوہ باتیل پر حمل و جیئند کی گونج اٹھی، جیئند نے ہکل دی، حمل لڑرہا ہے، حمل فدا ہورہا ہے، اس دفعہ حمل دشمن کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوگا، حمل دشمن کو سبق سکھا کر خود کو کوہ باتیل کی اونچائی پر فدا کرکے اونچا مقام حاصل کریگا اور تاریخ کو زندہ رکھے گا۔ وہ باتیل پر باطل سے ٹکرائے گے اور ایک بار پھر تاریخ حمل کو دہرا کر دشمن کو بتلائے گا کہ دشمن جتنی بھی نسل، قوم، رنگ اور زمانے بدل کر اس ساحل پر قدم رکھے، اس زِر کی پہازگ سے حمل کو غافل نہیں پائے گا۔

تعلیم یافتہ، سنجیدہ، سیکولر اور کٹر قوم پرست خیالات کے مالک، پنوں کے کیچ میں جنم لینے والا فدائی حمل فتح سے وہ بدنصیب انسان ہی ہوگا جس نے ملاقات اور گپ شپ نہیں کی ہوگی۔ خوش قسمت وہ ہونگے جو حمل فتح کے ساتھ وقت گذار چکے ہیں۔ حمل ایک ترازو، ایک پیمانہ اور ایک صاف آئینہ تھا، جس میں ذی شعور انسان اپنے آپ کو تولتا تھا، دیکھتا تھا، اپنی سوچ و اپروچ، علم و شعور، کردار و افکار، خاص کر بہادری کو پرکھتا تھا کیونکہ انسان زیادہ تر انسان سے سیکھتا ہے اور وہی اپناتا ہے، بشرطیکہ وہ اپنانا چاہتا ہو، سیکھنا چاہتا ہو اور وہ انسان جو ایک شفاف آئینے کی مانند ہمارے سامنے کھڑے ہوں وہ ایک ایسا پیمانہ بن جاتے ہیں کہ زندگی بھر کی سبق دے جاتے ہیں۔

حمل کے کردار و عمل سے کم از کم میرے ذہن پر اس مستند منطق کی مہر ایک بار پھر ثبت ہوا کہ جہاں ذہین، دانشمند، عالم اور باعمل انسان ہوتے ہیں وہاں زبانی جمع خرچ اور لفاظیت پر نہیں مارتا ہے بلکہ عمل خود ایک قسم کا گونگا پن ہوتا ہے۔ ایک اور بات جب انسان بہادر ہوتا ہے یا بہادری کی انتہاء پر ہوتا ہے تو انسان خود غرض، لالچی، منافق، بدنیت، حاسد، چغل خور، مغرور، جھوٹا نہیں ہوتا ہے یا پھر انسان خود غرضی، منافقت، بدنیتی، حسد، چغل خوری، غرور و جھوٹ سے خود کو پاک کرکے بہادر انسان بن جاتا ہے کیونکہ یہ تمام ذہنی امراض اور منفی سوچ دراصل بزدل انسان کی خصلتیں ہوتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا آیا ہے کہ انسان ان امراض سے چھٹکارہ پاکر بہادر ہوتا ہے یا پھر خود بہادر ہوکر ایسے منفی خصائل سے پاک ہوتا ہے۔

بقول مشہور و معروف فلسفی ژاں پال سارتر کے “بہادری اور بزدلی اور کچھ نہیں ایک کمیٹمنٹ ہے، بہادر بزدل بنتا ہے اور بزدل بہادر بھی بن سکتا ہے” میں سارتر کی اس موقف سے کب کا اتفاق کرچکا ہوں۔

انسان جو سوچتا ہے وہی بنتا ہے، بزدل بھی اور بہادر بھی، یہ سب کچھ انسان کا ہی سوچ ہوتا ہے۔ بے غرض کو خود غرض پایا ہے اور خود غرض کو بے غرض۔ اسی طرح بہادروں کو بزدل اور بزدلوں کو بہادر، پھر بات وہاں آکر رک جاتا ہے یہ اشرف المخلوقات کی سوچ کے اوپر انحصار کرتی ہے کہ وہ کیا بنیں۔

وراثت، تربیت، ماحول یہ سب اپنی جگہ، یہ انسانی سوچ کی تشکیل میں ایک نہ ایک حد تک ضرور اثر انداز ہوتے ہیں، مگر مکمل نہیں۔ مکمل صرف اور صرف انسان کی خود کے اندر کا ضمیر و احساس سے جنم لینے اور تشکیل پانے والی سوچ ہوتی ہے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے، پھر وہی بن جاتا ہے، یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے۔

حمل فتح نے کہا تھا کہ میں حمل جیئند کی طرح گوادر کی حفاظت کے لیئے لڑوں گا اور خود کو فدا کروں گا، ایسا ہی ہوا۔ کیا حمل کو وراثت و ماحول میں اور کچھ نہیں ملا تھا؟ وہ پھر کیوں حمل پر اثر انداز نہیں ہوئے؟ حمل کیوں مایوس نہیں ہوا؟ حمل کیوں الجھنوں اور سطحی سوچ کا شکار نہیں ہوا؟ حمل کیوں خود غرض بیوروکریٹک سوچ میں مبتلا نہیں ہوا؟ حمل کیوں بزدل، جنگی منافع خور اور خاموش راہ فراریت کا شکار نہیں ہوا؟ پھر جواب وہی آتا ہے حمل خود ایسا نہیں تھا، حمل کا سوچ ایسا نہیں تھا، اسی لیئے حمل تو حمل بن گیا۔

انسان بذاتِ خود طبی بنیاد پر کچھ نہیں سوائے گوشت و پوست کے، جو کسی بھی چرند و پرند سے چنداں مختلف نہیں۔ تبھی ہم جب بھی انسان کے مختلف جانداروں پر ممتازیت کی بات کرتے ہیں تو پھر بات سوچ کی کرتے ہیں۔ سو انسان اور کچھ نہیں سوائے اسکے سوچ ہے۔ آپ وہی ہو جو آپکا سوچ ہے، حمل فتح وہی بنا جو اسکی سوچ تھی اور اس سوچ کی تخلیق میں ایک بڑا کردار آپکا اپنا ہے۔ چنانچہ آپ خود کی خود تعمیر کررہے ہوتے ہو۔ آپ جس وقت جہاں ہیں وہ آپ نے خود لایا ہوا ہے۔

کوئی بھی جو کچھ بھی بنتا ہے یا کرتا ہے، وہ ماحول کو موردِ الزام نا ٹہرائے ہر عمل سوچ کا عکس ہوتا ہے۔ جیسی سوچ ہوگی ویسا عمل۔

فدائینِ وطن علم و زانت، شعور و ادراک، بہادری اور مجموعی احساس اور بے غرضی کے حوالے سے آخری انتہاء پر ہوتے ہیں۔ ان کے کردار، عمل اور سوچ کی پہلوؤں پر سائنسی، فلسفیانہ اور نفسیاتی طرز پر غور و فکر اور مطالعہ کرنا ہوگا، وہ اپنے آپ میں ایک زندہ تاریخ، ایک زندہ سبق و تجربہ ہیں۔ خاص طور پر بلوچ فدائین، دین و دھرم، گناہ و ثواب، جنت و دوزخ سے متاثر ہوئے بغیر یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر بھی شعوری طور پر، سوچ و سمجھ کر پختہ اور بالغ ہوکر اپنے جانوں کو قربان کرنا صرف اور صرف وطن و قوم کے نام، یہ یقیناً شعور کے اعلیٰ درجات ہیں، جہاں قدم رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ہمارے جیسے الجھنوں کے شکار انسانوں کو وہ ہمیشہ سوچوں اور سوالوں میں ڈبو دیتے ہیں کہ آخر بلوچ فدائین کیا ہیں اور کیسے ہیں اور کس خمیر سے بنتے ہیں۔

ہمیشہ تحریک ایک مشین ہوتا ہے اور مشین کا ہر چھوٹا اور بڑا پرزہ برابر نہیں ہوتا، البتہ کارآمد ضرور ہوتا ہے، بشرطیکہ پرزہ صرف پرزہ نہیں بلکہ اپنے حصے اور کام کے حوالے سرگرم اور فعال ہو، غیر فعال اور سرگرم عمل نہیں ہونا صرف اپنے آپ کو پرزہ سمجھ کر مطمین ہونا عمل و کردار کے حوالے سے پھر خیام خیالی اور مشین کے اوپر بوجھ بننے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہم ہمیشہ تحریک آزادی کے اوپر، تحریک اور تحریکی دوستوں کے لیئے دردِ سر اور بوجھ نہیں بلکہ طاقت و کمک اور سرگرم عمل حصہ بنیں۔

حمل پھر جیت گیا، حمل پھر زندہ ہوا، حمل پھر تاریخ کو زندہ کرکے بلوچ قومی تحریک میں ایک نئی روح پھونکنے کا موجب بنا، حمل کا فکر و فلسفہ، سوچ و افکار اور کردار کو آگے بڑھانا نوجوانوں کی ذمہ داری ہے، اسی میں قومی تحریک کی کامیابی منحصر ہے۔ یہ حملوں کی سرزمین ہے، یہاں کوئی حمل آخری نہیں ہوتا، ایک فدا ہوتا ہے تو دوسرے کی جنم۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔