بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے – ماما قدیر

132

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3637دن مکمل ہوگئے، مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے بڑی تعداد میں کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر کہا کہ بلوچوں کا قاتل یا لاپتہ کرنے میں صرف فوج یا اس کے ذیلی ادارے نہیں بلکہ ریاست پاکستان اور اس کے تمام ادارے شامل ہیں۔ بلوچ نسل کشی پر اقوام متحدہ کی خاموشی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی وجہ اقوام متحدہ میں عملاً ویٹو پاور کے حامل ان پانچ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے جو سیکرٹری کونسل کے مستقل رکن ہیں، اقوام متحدہ ان کی منشا وو مفاد کے بغیر کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتا ہے۔ جمہوریت، سیکولرازم اور انسانیت کے چیمپیئن یہ ریاستیں اپنے اپنے مفادا ت کے اسیر ہیں جہاں ان کے اپنے مفادات ہیں تو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں انہیں نظر آتی ہیں۔بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیاں، مسخ لاشیں اور فوجی آپریشنوں کے باعث گھروں سے جبری بے دخلی جیسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جمہوریت اور انسانیت کے چیمپیئن ممالک اس لیے خاموش ہیں کہ پاکستان ان کا پرانا آلہ کار ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں، تشدداور مسخ ان کی لاشیں پھینکنے کے انسانیت سوز واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ بلوچ نسل کشی میں تیزی لائی گئی ہے، بلوچ عوام کے خلاف فوجی آپریشن، جبری گمشدگیوں، تشدد، مسخ لاشیں پھینکنے اور چادر و چاردیواری کے تقدس کی پامالی کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ فوجی کاروائیوں کے دوران خواتین و بچوں کے گمشدگی اور گھروں کو لوٹنے، جلانے کے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں۔

انہوں نے کہا جبری طور پر لاپتہ بلوچ فرزندوں کی تعداد 47ہزار ہے اور اب تک دس ہزار مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہے۔