ماما، مہربان ماما ۔ جاوید بلوچ

408

ماما، مہربان ماما

تحریر. جاوید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

آزادی کی اس کٹھن سفر میں جہاں قدم قدم پر مشکلات و تکلیفیں ہیں اور ہر وقت موت اور زندگی کی کشمکش رہتی ہے، یہ سب خندہ پیشانی سے وطن کے محافظ قبول کرتے ہیں، خود ان تکلیفوں اور مشکلات کو اسلیئے سہتے ہیں کہ ہمارے آنے والے نسل ایک روشن اور خوشحال مستقبل دیکھ سکیں اور اپنے وطن ملک قوم کا خود مالک بنیں. اس سفر میں ماؤں نے اپنے لخت جگر قربان کیئے ہیں، بھائیوں نے اپنے بازو کوپہ قربان کیئے ہیں، بہنوں نے اپنے بھائی اور شوہر قربان کرکے ہمارے اور ہمارے آنے والے نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ہیں تاکہ ہم اور ہمارے آنے والے نسل ایک خوشحال آزاد اور پرامن زندگی بسر کرسکیں۔

سنگت ماما شمس بلوچ بھی اسی کارواں کا ایک سپاہی تھا، جو اُنیس سال سے وطن کی آزادی کیلئے دشمن سے لڑتا رہا اور شہادت تک ثابت قدم رہا. ماما شمس بچپن سے ہی قومی تحریک سے جڑا رہا، ماما نے اپنا بچپن ہلمند افغانستان کے مہاجر کیمپ میں گذارا. وطن واپس آکر تحریک کی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کیا. نوشکی و خاران کے پہاڑ ہوں یا بولان و نا گاہی یا سیاہ گری، ماما نے ہرجگہ، ہرمحاذ پر وطن کی حفاظت کی.

ماما شمس سے ملاقات تین چار سال پہلے ہوئی، ایک مہربان شفیق دوست ماما سے کچھ لمحے کی ملاقات سے ہی ماما کے کردار سے بہادری و مخلصی جھلک رہا تھا، کچھ دیر ماما سے کام کی باتیں ہوئی پھر تھوڑی سی ہنسی مزاق کے بعد ماما کو رخصت کیا. ماما سے رابطہ ہوتا رہتا. ماما ہر وقت کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں کبھی ادھر کبھی اُدھر. ماما شمس ایک مخلص، بہادر، ایمان دار جہدکار تھا۔ ماما شمس نے اپنے زندگی کے اُنیس سال بلوچ قوم اور وطن کیلئے وقف کیئے، ان اُنیس سالوں میں ماما نے ہرطرح کے مصیبت مشکلات کا سامنا کیا لیکن کبھی بھی مایوسی اور ناامیدی کی کوئی بات نہیں کی، ہرطرح کے مشکل و سخت حالات میں ماما ہمیشہ سب سے آگے اپنے وطن و قوم کی خدمت اور حفاظت کیلئے پیش پیش رہے. شہید ٹکری استاد حمل خان کے ہم سفر رہے، جو تحریک بنیادی کرداروں میں سے ایک تھا. ماما شمس بلوچستان کے کونے کونے میں جاکر آزادی جیسی نعمت سے لوگوں کو آگاہ کرتا رہا، انہیں اپنے دشمن کے بارے میں بتاتے کہ کس طرح ہماری سرزمین پر قبضہ کیا گیا اور ہماری ماں بہنوں کی عزت کو بھی نہیں بخشا گیا۔.

ماما شمس ایک ستارہ ہے جو ہمیشہ بلوچ سرزمین پر چمکتا رہے گا اور ہمیں آزادی جیسے نعمت کا شعور دیتا رہے گا. ماما شمس نے دشمن پر بہت سے حملوں میں اپنی خدمات پیش کیئے ہیں اور دشمن کو ہربار اپنی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے نقصان دیتا رہا ہے. ماما نے بہت سے فوجی آپریشنوں میں ساتھیوں کو دشمن کے گھیرے سے بحفاظت نکالا ہے۔.

شور پارود میں ماما نے اپنے جدوجہد کا زیادہ عرصہ گذارا ہے، جب یہاں کوئی کیمپ نہیں تھا کوئی آزادی کی تحریک سے واقف نہیں تھا، اسی وقت ماما شمس نے شہید استاد حمل خان کیساتھ نوشکی کے پہاڑوں میں آکر اپنا کام شروع کیا، بہت سے مشکلات کا سامنا کیا اور دن رات ایمانداری سے محنت اور لگن سے تحریک کو آگے بڑھایا. آج نوشکی ہو یا شور پارود ہر جگہ ماما شمس کی یادیں ہیں. ماما شمس کے ساتھ تحریک میں شامل کئیوں نے دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہوکر دشمن کیساتھ ملے کئی دوست اس سفر میں شہید ہوئے لیکن ماما شمس نے ہمیشہ ان سب کا دیدہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ شہید دوستوں کے کام کو آگے لے گیا ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دیا کیونکہ ماما ان کا مشن کو ہمیشہ آگے لیجانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے تھے.

ماما شمس بے غرضی و مخلصی سے اپنا کام کرتا تھا، ایک درویش صفت انسان، سادہ مزاج، غرض سے پاک، ایک ایسا جہد کار جو بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔

شور پارود میں جب قمبر خان مینگل کی سربراہی میں سرکار نے ڈیتھ اسکواڈ قائم کیا تو قمبر خان مینگل جو شہید لونگ خان کا بیٹا ہے، اپنے شہید باپ کے خون کی پاس نا رکھتے ہوئے دشمن کا کاسہ لیس بن کر شہید لونگ خان کے وارثوں کا دشمن بن گیا. قمبر خان مینگل اپنے دیگر مسلح کارندوں کے ساتھ جن میں اسکا بیٹا پسند مینگل بھی شامل ہے، بلوچ سرمچاروں کے خلاف سرکار کیساتھ مل گیا. قمبر خان سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے عزت آبرو کا سودا کیا.

ماما شمس دو دیگر ساتھیوں، شہید ظفر محمد حسنی اور شہید شعیب بلوچ کیساتھ علاقے میں گشت پر تھے کہ 17 مئی کو قمبر خان مینگل کی سربراہی میں سرکاری ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ جھڑپ ہوئی، اس جھڑپ میں بلوچ وطن کے تینوں محافظ اپنا لہو دیکر وطن کی حفاظت کی. تینوں شہیدوں نے آخری سانس تک دشمن سے لڑے اور وطن کی خاطر اپنی جان دیدی. ماما شمس اور اس کے ساتھیوں کو تاریخ اپنے سنہری حروف میں ہمیشہ یاد کریگا، وہ جانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن ان کا فکر ان کا مقصد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا. ماما شمس ہر قدم پر وطن کی آزادی تک ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔