نظریئے کی اہمیت ۔ شہیک بلوچ

278

نظریئے کی اہمیت

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی کو ایک عظیم مقصد کے حصول کے نام کرنے کے نصب العین کو نظریہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ نظریہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس کی بنیاد پر انسان تبدیلی کی امید لے کر منزل مقصود کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے نظریئے کی اہمیت پر نہایت خوبصورتی سے لکھا ہے ” یہ ضروری ہے کہ انسان کے پاس کوئی عظیم مقصد کوئی عظیم نظریہ ہونا چاہیئے وگرنہ انسان کہیں نہ کہیں جھک جاتا ہے بک جاتا ہے۔”

نظریہ ایک مکمل نصب العین ہے جو انسان کو جدوجہد کی اہمیت کا شعور عطا فرماتا ہے اور کمزوریوں و خامیوں کو سمجھ کر ان پر قابو کرنے کے فن سے آشنا کرتا ہے۔

ذرا سوچیے اسپارٹیکس کے پاس آخر کیا تھا؟ ایک غلام جو صرف خونریزی کے لیئے سدھایا گیا تھا، لیکن جب ایک آزاد انسان کے نظریئے نے اس کے ذہن میں جنم لیا تب وہی تلوار باز ایک لیڈر بن گیا اور روم میں غلاموں کی سب سے بڑی بغاوت رقم ہوئی۔ اسپارٹیکس کو ایک گلیڈیٹر سے ایک انقلابی بنانے میں عمل دخل نظریئے کا ہے۔ نظریہ عظیم ہے کیونکہ یہ جدوجہد کا محرک ہوتا ہے، جدوجہد کی رہنمائی کرتا ہے اور حالات کی سختیوں کو برداشت کرنے اور جدوجہد کی راہ کو ہموار کرنے کا شعور عطا کرتا ہے۔

چے گویرا کو ہم کیوں یاد کرتے ہیں کیونکہ ایک نظریاتی رشتہ ہے، وہ ایک ایسے نظریئے کے لیئے امر ہوا، جس کی روشنی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اسی نظریئے نے بہت سے چے گویرا جنم دیئے۔ ہمارا انسپریشن ہر وہ انقلابی ہے جس نے جہد مسلسل کو برقرار رکھا اور اپنے نظریئے پر سمجھوتہ نہیں کیا، جو مایوس ہونے کی بجائے مایوسیوں کو توڑ کر جدوجہد کی راہ ہموار کرنے والا ثابت ہوا، سخت سے سخت حالات میں عظیم سے عظیم تر قربانی دینے والا۔

زندگی بغیر جدوجہد کے کچھ بھی معنی نہیں رکھتی اور ایک ایسا نظریہ جو انسان کو کسی عظیم اجتماعی جدوجہد سے وابستہ کرے اس سے زیادہ اور بہتر زندگی کو جینے کا اور کیا طریقہ ہوسکتا ہے۔ آج تک جتنے بھی بلوچ فرزند شہید ہوئے کم از کم دل میں یہ ارمان تو نہیں کہ وہ بے مقصد گئے، نہ ہی وہ کسی قبائلی جنگ کا نشانہ بنے، نہ ہی منشیات کی لت میں مارے گئے نہ ہی مذہبی جنونیت کا نوالا بنے بلکہ بلوچ نیشنلزم کے عظیم نظریئے کے لیئے قربان ہوئے اور اس پر ہمیں فخر کرنا چاہیئے کیونکہ ہمارے رہبر جنرل اسلم کا یہ قول ہے کہ “ہم آزادی وطن یا مرگ شہادت کے فلسفہ پر عمل پیرا ہیں۔”

آزادی کے لیے ہمیں قربانیاں دینی پڑینگی، نظریاتی جدوجہد نسلوں کا سودا ہے، یہ کوئی چند ماہ یا چند سالوں کی بات نہیں یا ایک سے دو الیکشن جیتنے کا معاملہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا تعین ہے، جس کے لیئے ایک طویل مدتی جدوجہد درکار ہے، اس راہ میں مزید قربانیاں دینی پڑینگی لیکن سوچ سمجھ کر عقلمندی سے اور اپنے اہداف کا تعین بھی لازم ہے لیکن مایوسی کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دینا ہے کیونکہ یہ جدوجہد جس قدر تسلسل کیساتھ برقرار رہیگی اتنی ہی منزل قریب آتی جائیگی اور اس مرتبہ اس کے تسلسل کو ہر صورت برقرار رکھنا ہے۔

آج بلوچ جہدکار پرعزم ہیں انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا اپنے نظریئے کو بنا لیا ہے، ان کی زندگی آزادی وطن کے لیئے ہے اور ان کی موت شہادت مرگ اور ایسے آہنی حوصلوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، جو نظریئے کی بنیاد پر قائم ہوں۔ بلوچ نوجوان اس بات کا شعوری طور پر ادراک حاصل کرلیں کہ جدوجہد میں وقتی طور پر نقصان ضرور ہوتا ہے، تکلیف بھی لیکن پھر بھی جدوجہد کو آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ نوجوان نیشنلزم کے نظریئے کو شعوری طور پر اپناتے ہوئے بلوچ جہد کا حصہ بنیں اور اپنا قومی کردار ادا کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔