حمل بلوچ، ایک مسکرا ہٹ میرے شہادت کے نام
ہانل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک مسکراہٹ میرے نام۔
ایک مسکراہٹ تیرے نام۔
ایک مسکراہٹ میرے دوستوں کے نام۔
ایک مسکراہٹ میرے وجود کے نام۔
اور ایک مسکراہٹ میرے شہادت کے نام،جس نے مجھ کو میرے حقیقی مادر وطن سے ملا دیا۔
ویسے انسان کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ وہ کسی انسان کو کسی چیز پہ ، کسی فرد پہ ،کسی وجود پر مرنے پر راضی یا اس کے محبت میں مبتلا کر دیتی ہے، ان میں سے ایک ہم بھی نکلے کہ اتنی محبت اور اتنی شعوری تربیت نے ہمیں بھی ایک مقام پر پہنچا دیا۔
مادر وطن سے ہم اس قدر محبت کر بیھٹے کہ اس پر قبضہ گیریت نے بے چین کردیا اور آج اسی بے چینی نے ہمیں اپنے مادر وطن پر قربان کر دیا آج ایک اور حمل کی شہادت ہوئی
بلوچ قوم کو ایک لاشعوری زندگی سے گذارا گیا، اس پر ہر قسم کی حکومت کی جارہی ہے، اس کی نظریے کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی ہر روز بلوچستان پر ایک نئے حکومت کا وجود پنپ ریا ہے، ہر روز بلوچ فرزند لاپتہ ہورہے ہیں، ان کو زندانون میں اذیت و موت دی جارہی ہے، رات ہو یا دن ماؤں کے سامنے ان کے گھروں کے اندر ان کے نوجوانوں کو اٹھایا جارہا ہے۔
بلوچستان کے سارے کالجز اور یونیورسٹیاں آرمی کے کیمپ بن گئے ہیں، ان کے معدنیات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور جب کوئی بھی حکومت آتا ہے تو اپنے لکھے ہوئے نکات پیش کرکے چلا جاتا ہے۔ بلوچ قوم کو اسطرح لاچاری کا شکار کیا گیا ہے کہ اب مائیں اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے بھی ڈرتی ہیں۔
ان کے ذہن میں ایک گہرے ڈر کا وجود پڑ گیا ہے اور انسان کا سوچ کبھی اسطرح نا امید اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایک خوف کا وجود ذندہ رہتا ہے، جس سے وہ اپنے صدیوں کی جد وجہد سے دور ہونے لگتا ہے۔ انسان اپنے فطرت میں پلے خوف کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں خود کو خاموش اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
مگر ایک انقلابی انسان ہر وقت اپنے ذہن میں ایک مقصد کو زندہ رکھ کر اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے حقائق اور معلومات جمع کرتا ہے اور انہیں ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
انسان کی تاریخ میں کچھ ایسے موقع آتے ہیں جو کہ پورے دنیا کو اپنی توجے کا مرکز بناتے ہیں۔
“زر پہازگ”جس کے بارے میں دنیا کے ہر ملک میں updating کی گئی، یہ آپریشن ایک سوچ کی نشان بن گئی کہ جس نے بلوچ قوم کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر اپنا وجود رکھا۔ بلوچ قوم ابھی تک ایک زندہ قوم ہے جو نہ اپنے وطن کو کسی کے حوالے کرے گا نہ کسی بھی طاقت کو یہاں پر آنے دے گا۔ گوادر جس کی مٹی کی خوشبو کے لیے ہمارے بلوچ فرزند تڑپتے تھے اور آج اسی ہی مٹی پر انہیں شہادت مل گیا تاریخ ہمیشہ اپنے وارث کو پہچانتا ہے، جیسے شہید اسلم بلوچ کی شہادت بلوچ قوم کے لیے ایک عظیم ہستی سے محرومی کا باعث ثابت ہوا۔ مگر آج بھی اس کی جدوجہد کی روشنی بلوچستان کے ہر کونے میں دکھائی دیتی ہے۔
“زرپہازگ” میں شہیدوں کی جنگ ایک انقلابی جنگ کی نشانی ہے۔ ویسے موت نئی زندگی کو جنم دیتی ہے اور بلوچ تحریک میں نئی زندگی کا وجود ہوا۔
حمل بلوچ کی ایک اور کہانی ہم سے ٹکرا گئی، بلوچ تحریک میں حمل بلوچ ایک بہت ہی اہم نام ہے جس کی مثالیں آج تک بلوچ قوم میں زندہ ہیں۔
حمل ایک گہری سوچ ہے، حمل ایک انسانی شعور کی بنیاد ہے ،
حمل ایک پہچان ہے ، حمل ایک فلسفہ ہے، حمل ایک ایسی تاریخ ہے جو قوم کے شمع جلانے کے لیئے نہایت ضروری ہے۔
اور آخر میں
ایک مسکراہٹ ان کے نام ، جو ہماری تحریک کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔