خطے کی بدلتی صورتحال ، سوال است جواب ندارد – قاضی داد محمد ریحان

707

خطے کی بدلتی صورتحال ، سوال است جواب ندارد

قاضی داد محمد ریحان

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کہاں واقع ہے؟ امریکا یا اسرائیل اور ہندوستان کے بغل میں نہیں بلکہ پاکستان کے جبری گرفت کے علاوہ بلوچستان کی سرحدیں ایران اور افغانستان کے ساتھ متصل ہیں، یہ وہ حقیقت ہے جس سے عموماً نظریں چرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچ سیاست کے ابتدائی سرکلز میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان پر تین ممالک کا قبضہ ہے پاکستان، ایران اور افغانستان کا۔ پاکستان کے ساتھ بلوچ مخاصمت کا رشتہ ہمیشہ انتہا ء پر رہا ہے۔ مشرقی بلوچستان کا سماج سیاسی حوالے سے گوکہ پختہ نہیں کہا جاسکتا لیکن کافی حد تک سیاسی ہے، بلوچستان کے اس حصے میں باشعور سیاسی کارکنان کی مثالی تعداد موجود ہے، یہاں کی تحریک نے بلوچ مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا ہے اور اپنی آزادی کے لیئے قربانیوں کی عظیم تاریخ رقم کی ہے۔

افغانستان کے زیرانتظام بلوچ سرزمین کے بارے میں ہم بہت کم سنتے ہیں، وہاں بلوچوں کو درپیش مسائل پر بات نہیں کی جاتی۔ بلوچستان کی موجودہ تحریک کا بنیادگزار ’بلوچوں کا مری قبیلہ ‘ ہے جس نے سویت یونین کے زمانے میں افغانستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا، مری مزاحمت کا یہ دور سویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ مری سردار ’خیربخش مری ‘پاکستانی آمر ضیاء الحق کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں پاکستانی طیارے میں وطن واپس ہوئے ، ساتھ ہی عام مری بھی کسمپرسی کی حالت میں وطن پہنچے۔ یہاں مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماء شیروف مری کے سردار خیربخش مری کے ساتھ اختلاف پر بھی خاموشی کا چادر ڈالا جاتا ہے۔ افغانستان کے زیرانتظام بلوچ خطے کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس پر بھی کوئی شفاف رائے موجود نہیں ۔ افغانستان سے مراعات حاصل کرنے والی جماعتوں کی افغانستان کے بلوچوں کے سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بی این ایم نے افغانستان میں تنظیم سازی ضرور کی ہے لیکن ابھی تک وہاں تنظیم کی خدوخال واضح نہیں۔ کیا بی این ایم افغانستان کے بلوچوں کو سیاسی بنیاد پر منظم کرنا چاہتی ہے؟ اگر ہاں تو کیا یہ افغانستان کے زیرانتظام بلوچ سرزمین کی ڈیموگرافی کے تحفظ کے لیئے ہے یا محض مشرقی بلوچستان کی تحریک کی معاونت کے لیئے؟ کیا بی این ایم افغانستان میں بطور سیاسی پارٹی رجسٹر ہوکر افغانستان کے انتخابات میں حصہ لے گی ؟ پہلے ہی دن میں نے یہ سوالات متعلقہ دوستوں کے سامنے اپنی رائے کے ساتھ رکھا کہ’ افغانستان کے زیرانتظام بلوچ سرزمین کو مشرقی بلوچستان کی تحریک کے لیئے مددگار بنانے کے ساتھ ساتھ وہاں کے بلوچوں کو منظم کرنے کے لیئے بی این ایم کلیدی کردار اداکرئے۔ بی این ایم کا تنظیمی پھیلاؤ، آئینی وضاحت اور مقامی بلوچوں کی سیاسی شراکت کے بغیر بے معنی ہے۔ ‘

ایران کے زیرانتظام مغربی بلوچستان اور ایرانی اقوام کے ساتھ بلوچ رشتے ہمیشہ سے پروپیگنڈہ اور نظریاتی تعصب کا شکار رہے ہیں ۔ مغربی بلوچستان کے زمین پر سیاسی طاقت سنی علماء کے پاس ہے، جو کٹرمذہبی رجحانات کو فروغ دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے اس حصے میں مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم میں بلوچ قومی نمائندگی کے بجائے ایرانی سنیوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں ۔ بلوچ قیادت میں بننے والی ایرانی سنیوں کی مضبوط تنظیم جنداللہ تھی، جس کے سربراہ مالک ریکی کو مغربی بلوچستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ بنوریہ ٹاون کراچی کے مدرسہ ’جامعہ علوم الاسلامیہ ‘سے تعلیم حاصل کرنے والے اس پرہیبت اور بلوچ گوریلا جنگ کی تاریخ میں با اثرترین کرداروں میں سے ایک کو ایران نے غیرمعمولی انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایک غیرمعمولی آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا۔ ایرانی حکام کے مطابق عبدالمالک ریکی افغانستان کے پاسپورٹ کے ذریعے عبدالمجید کے نام پر کرغزستان کے ائرلائن کے بوئنگ 737 پر دبئی سے کرغزستان کے دارلحکومت بیشکک جارہے تھے۔ ایران کے فضائی حدود میں ایرانی جنگی طیاروں نے مذکورہ بوئنگ کو بندرعباس کے ایئرپورٹ پر اترنے پر مجبور کیا اور یوں مزاحمت کا یہ باب20 جون 2010 کو ایرانی عدالتی فیصلے کی بنیاد پر تہران کے بدنام زمانہ اوین جیل میں پھانسی پر چڑھادیا گیا۔

عبدالمالک ریکی کے بین الاقوامی طاقتوں سے راہ و رسم کے بارے میں ایرانی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں افغانستان میں نیٹوحکام کی بھرپور مدد حاصل تھی اور جب انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ بیشکک میں افغان امور کے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ ھالبروک سے ملاقات کے لیئے جارہے تھے۔ عبدالمالک ریکی کے بعد جنداللہ میں پھوٹ پڑ ا اور اس کے بطن سے جیش العدل نامی ایک اور تنظیم پیدا ہوئی جو وقتاً فوقتاً ایرانی فورسز پر حملے کرتی ہے۔ مگر تاحال مالک ریکی کی گرفتاری کا معمہ ، معمہ ہی ہے۔ بلوچ حلقے ان متضاد بیانات پر بھی چپ سادھے ہوئے ہیں جو ایران، امارات اور کرغزستان کے حکام کی طرف سے جاری کیئے گئے۔ الجزیرہ نے جو کہ مغربی بلوچستان میں ان مذہبی تنظیموں کی کاررائیوں میں دلچسپی رکھتا ہے، اپنے ایک رپورٹ میں دعویٰ کرتا ہے کہ ایران کے دعوے سے ایک ہفتے قبل عبدالمالک ریکی کو پاکستانی فورسز نے گرفتاری کے بعد ایران کے حوالے کیا۔ سوالیہ نشان یہاں بھی ہے کہ گرفتاری سے چند دن قبل پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن ’جیو نیوز ‘پر عبدالمالک ریکی کا ایک تفصیلی انٹرویو نشر ہوا، جس میں انہیں بلوچستان کے پہاڑوں میں دکھایا گیا۔ اس انٹرویو کی ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے ایسا گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کی انٹلی جنس ایجنسی عبدالمالک کے انجام سے باخبر تھے لیکن ایرانی حکام نے اس بات کی تردید کی کہ عبدالمالک ریکی کی گرفتاری بیرونی انٹلی جنس ایجنسیوں کے مدد کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔ عبدالمالک ریکی کا انجام بین الاقوامی سطح پر گہری سازشوں اور اندرونی کمزوریوں کی طرف اشار ہ دیتا ہے، مگر ہمارے پاس اس کے تصدیق کا کوئی باوثوق ذریعہ نہیں۔

عبدالمالک ریکی کے بعد ایرانی حکام کے بلوچستان سے متعلق رویئے میں ہونے والی تبدیلی یکایک رونماء نہیں ہوئی، لیکن ایک دہائی بعد ان تبدیلیوں کوزمین پر محسوس کیاجانے لگا۔ عبدالمالک ریکی کی زندگی میں ایرانی حکام اور غیربلوچ عوام کا بلوچوں کے ساتھ تعلقات سردمہری اور دوطرفہ تعصب کا شکا ر تھے، ان کے بعد برف پگھلنے لگی اور بلوچ قوم کو سمجھنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ عوام کو خریدنے اور دبانے کی پالیسی کی بجائے ’سپاہ پاسداران انقلاب ‘ نے دلوں کو تسخیر کرنے کے لیئے سنجیدہ کوشش کی۔

۔ لیکن بدقسمتی سے مغربی بلوچستان کو بھی آبادی اور انتظامی حوالے سے ایسی صورتحال کا سامنا ہے جو مشرقی بلوچستان کو ہے۔ مغربی بلوچستان کےبار ے میں شال (کوئٹہ) سے ایرانی سفارت خانے کی طرف سے شائع ہونے والے ایک تعارفی کتابچے میں بھی اس کاذکر کیا گیا ہے کہ’سیستان و بلوچستان میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں ایک مقامی اور دوسرے غیرمقامی ، دونوں ایک دوسرے کے قریب سے ایسے ہی لاتعلق گزرتے ہیں کہ جیسے دونوں ایک دوسرے کاسایہ ہوں ‘ ۔ جس طرح مشرقی بلوچستان میں پشتون بلوچستان کے وسائل پر برابری کا حق جتاتے ہیں اور انتظامی امور میں پشتون بلوچ مفادات کے درمیان رسہ کشی چلتی رہتی ہے، عین اسی طرح مغربی بلوچستان میں ’ زابلی ‘ اور ’ بلوچوں ‘ کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

زابلی شیعہ اکثریت اور فارسی زبان ہونے کی وجہ سے حکومتی اداروں میں زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں، بالخصوص قانون نافذکرنے والے اداروں میں بلوچوں کی عدم دلچسپی کا زابلیوں کو براہ راست فائدہ ہوا ہے اور انہوں نے مرکزی سطح پر اس بات کو باور کرایا ہے کہ بلوچستان میں زابلیوں کو ترجیح دینا مرکز کے مفاد میں ہوگا۔ لیکن پاکستان کے برعکس ایران کے اکتیس صوبے ہیں ، ان میں سے بلوچستان رقبے کے لحاظ سے کرمان کے بعد دوسرا بڑا صوبہ ہے، جو مجموعی ملکی رقبے کے گیارہ فیصد پرمشتمل ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی بلوچستان کے حدودکرمان اور ھرمزگان تک ہیں، جہاں اب بھی قابل ذکر تعداد میں بلوچ آباد ہیں۔ ایرانی زیرانتظام مغربی بلوچستان کے انتظامی رقبے کی وسعت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاتا ہے ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ملک ’شام ‘ سے بڑا ہے۔

آبادی کی تناسب کے لحاظ سے بلوچستان ایران کے دیگر صوبوں میں دسویں نمبر پر ہے، جو ملکی مجموعی آباد ی کا 2.4 فیصد بنتا ہے اور ایرانی جی ڈی پی میں بلوچستان کا حصہ محض1.0 فیصد ہے ۔ سرسری طور پر اگر کہا جائے تو بلوچستان کی محرومیت اور روزگار کے کم مواقع کی بنیاد پر ایران کے مرکزی حکومت پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ہم ایران کے سرحدوں کے اندر، اداروں کی کارگردگی اور بلوچ نمائندگان کی ایرانی پارلیمان میں کردار کو دیکھتے ہوئے ایرانی نظام کے خلاف یکسر منفی رائے قائم نہیں کرسکتے ۔ اور ایرانی حکومت کی ’منطقہ ہای محروم ‘ یعنی پسماندہ علاقوں کو ترجیح اور سبسڈی دینے کی پالیسی کی وجہ سے ۔ بجلی کے بلوں ، اسکول کی کتابوں اور صحت عامہ کے مد میں خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ ایران میں کئی ایسی حکومتی پالیسیاں ہیں جو گوکہ اسٹبلشمنٹ اور طاقتور مافیاز کی وجہ سے اس طرح عوام کو فائدہ نہیں پہنچا رہے، جس طرح پہنچایا جاسکتا ہے ۔ لیکن پھر بھی براہ راست حکومت کے خزانے سے عام لوگوں کی جیب میں پیسہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یارانہ کے علاوہ سرحدی علاقوں کے لوگوں کے لیے روزگار کے کم مواقع کو دیکھتے ہوئے اور غیرقانونی اشیاء کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک اسکیم بنایا گیا ہے، جس کے تحت ہر گھرانے کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ مستحقین کو کمیتہ امداد سے امداد فراہم کرنے کے علاوہ ’سبد کالا ‘ (اشیائے ضرورت کی ٹوکری ) نامی اسکیم کے ذریعے بھی اشیائے ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے دیئے جاتے ہیں، جس سے وہ اپنے بینک کارڈ کی مدد سے مخصوص دکانوں میں جاکر خریداری کرسکتے ہیں۔

یہ بھی غورطلب ہے کہ مغربی بلوچستان، اپنے وسائل کی وجہ سے ایران کا سب سے اہم صوبہ نہیں جیسا کہ مشرقی بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت اور بے پناہ معدنی وسائل کی وجہ سے پورے بندوبست پاکستان میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ مشرقی بلوچستان میں شدت کے ساتھ وسائل کی لوٹ مار جاری ہے اور بلوچ عوام کو تہہ دست رکھا گیا ہے۔ ایران میں ’ تیل ‘ کے ذخائر کو قومی دولت قرار دیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے تیل کی آمدنی کو براہ راست عوام کے فلاح کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔ احمدی نژاد کی حکومت نے تیل کی آمدنی سے عوام کو سبسڈی میں اجناس دینے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے تمام شہریوں کو نقدی کی صورت مالی امداد دینے کا سلسہ شروع کیا، جسے یارانہ یعنی امداد کہا جاتاہے۔ احمدی نژاد کی اس پالیسی پر شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ اس اقدام سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا لیکن نقد رقم براہ راست کم آمدنی والے افراد کی جیب میں آنے سے بلوچستان جیسے محروم علاقوں کے لوگوں کو فائدہ ہوا۔ میں کئی ایسے گھرانوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو کئی سالوں تک محض حکومت کی طرف سے فراہم کردہ امدادی رقم پر گزارہ کرتے رہے ہیں۔ یہ پیسے جو بلوچستان کے عوام کو بھی برابر دیئے جاتے ہیں اس کا بیشتر حصہ بلوچستان سے حاصل نہیں کیا جارہا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وسائل اور جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے مغربی بلوچستان کا ساحلی علاقہ بالخصوص چھبار ایک اہم تجارتی حب بن سکتا ہے۔ چھبار کی آزاد بندرگاہ کے حوالے سے ایران، پاکستان سے کئی قدم آگے ہے۔ محض میڈیا پروپیگنڈہ نہیں بلکہ زمین پر انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے ایران نے چھبار کو خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک بنادیا ہے۔ جو اپنی ترقی کی رفتار کے حوالے سے بڑی تیزی سے ایران کے دیگر بندرگاہوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ چھبار فری زون اتھارٹی کے اس وقت کے سربراہ عبدالرحیم کردی ہیں۔ جو اقتصادی امور پر کئی سالوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ادارے کے ویب سایٹ کے مطابق عبدالرحیم کردی بلوچستان اور چھبار میں کئی اہم اقتصادی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ، اقتصادی امور پر ان کے کئی مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں جو اہم موضوعات پر ہیں۔ ایران چھبار کی اہمیت سے ہرگز غافل نہیں اور نہ ہی اس کو چھپایا جاتا ہے بلکہ چھبار کو ایران کے سات اہم ترین اقتصادی مراکز (ھفت گانہ ) میں شمار کیا جاتا ہے۔ منطقہ آزاد 14 ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جوچھبار شہر سے الگ ایک پررونق اقتصادی زون ہے۔

چھبار اور گوادر کے نقشے میں کافی حد تک مماثلت ہے لیکن جس طرح ایرانی حکومت نے چھبار کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی ہے، پاکستانی سیکورٹی فورسز نے گوادر کو سیکورٹی زون میں تبدیل کرکے ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی ہے ۔ گوادر کے کوہ باتیل پر نیول بیس قائم کیا گیا ہے، جبکہ ایک حصے کو پوش رہائشی ہاءوسنگ اسکیم (سنگار ہاءوسنگ اسکیم) میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اگر وہاں تعمیرات ہوئے بھی تو عام لوگ وہاں جانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکیں گے رہائش بہت دور کی بات ہے۔ اس کے برعکس چھبار فری زون چھبار کی پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں کوئی شہری آبادی نہیں تھی۔ ایران اور پاکستانی حکومت میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ وہاں کے تعمیراتی منصوبوں کو مقامی وسائل اور استعداد کی بنیاد پر پرسکون انداز میں شروع کیا گیا، جبکہ گوادر میں میگاپروجیکٹس کے اعلان کے بعد سے لے کر ا ب تک سب سے بڑا کاروبار پراپرٹی کا ہے۔

گوادر کی جغرافیہ سمیت تمام وسائل کی پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر لوٹ سیل لگا دی گئی، جس کو محسوس کرتے ہوئے گوادر اور بلوچستان میں لوگوں میں خدشات پیدا ہوئے اور بلوچ قومی تحریک کو ایندھن ملا ۔ چھبار میں بنجرزمینیں منابع طبعی اورمحیط زیست کی ملکیت ہیں، جو ان زمینوں کا دیکھ بھال قومی وسائل کے طور پر کرتے ہیں۔ رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیئے زمینیں حاصل کرنے کے لیے متعلقہ شہری حکومتیں یا ادارے منابع طبعی کو درخواست دیتے ہیں اور منابع طبعی کئی پہلووں پر غور و خوض کے بعد زمینیں واگزارکرتا ہے۔ پسابندن سے لے کر کنارک تک ساحلی پٹی پر ہر طرح کی تعمیراتی سرگرمی اور زمین کے تصرف پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔ ایران میں مظاہرفطرت کے تحفظ کے لیے بیک وقت کئی ادارے کام کررہے ہیں جو ملک کے جنگلات ، آبی وسائل اور مظاہر فطرت کا تحفظ کرتے ہیں۔ تعمیراتی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی بھی طرح کی تعمیراتی سرگرمی کے نتیجے میں مظاہرفطرت، جنگلات اور حیوانات کو نقصان نہ پہنچے۔

اگرصرف چھبار اور گوادر میں ترقیاتی منصوبوں اور دونوں حکومتوں کی دلچسپیوں کا ہی زیرک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کوئی مقابلہ ہی نظر نہیں آتا۔ ایران نے چھبار کے تعمیراتی منصوبے بغیر کسی تیسرے فریق کے شروع کیئے ہیں اور ایک وسیع منصوبہ ’طرح توسعہ سواحل مکران ‘ کی پارلیمان نے منظوری دی ہے، جس کے مطابق جاشک سے لے کر پسابندن تک انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جائے گی ، اس منصوبے پر بلوچ شدید تحفظات کا بھی اظہار کررہے ہیں، مگر اس پر با اثر بلوچوں کی رائے بھی مقسم ہے۔ چھبار میں کسی کے پاس لاکھوں ایکٹرز نجی زمین نہیں اس لیئے وہاں غیربلوچوں کو زمینوں کی ملکیت کی منتقلی کی شرح کم ہے۔ مغربی بلوچستان کے ساحلی علاقے میں با اثر سپاہ پاسداران انقلاب کے لیے بندرگاہ کی تعمیر کے منصوبے کو محیط زیست نے کئی سالوں تک روکے رکھا اور اس شرط پر اس منصوبے پر کام کی اجازت دی کہ کام اس وقت کیا جائے گا جب نایاب کچھوؤں کے انڈے دینے کا وقت نہ ہو، اس سے ان اداروں کی خودمختاری اور طاقت کا اندازہ لگا لیجئے۔ سڑک کی تعمیر میں چکنی مٹی کے پہاڑی تودوں کی تخریب پر بھی پابندی ہے (گوادر میں تاریخی کوہ میدی کو تراش کر دیمی زر ایکسپریس وے کو راستہ فراہم کیا گیا ہے، صرف اس لیے تاکہ چینی کمپنی کو سڑک کی تعمیر کے لیے بھاری معاوضے کی ادائیگی سے بچایا جاسکے )۔ یہ پہاڑی تودے ویسے ہی ہیں جیسے بلوچستان کوسٹل ہائی وے پر وسیع سلسلہ ہے ۔ ایران میں ان کو اساطیری طور پر متعار ف کرواکر خود بلوچوں کو ان کی اہمیت کا اِحساس دلایا گیا، جو میرے خیال میں مشرقی بلوچستان میں بلوچوں کو تاحال نہیں۔ چکنی مٹی کے ان پہاڑی تودوں کو ’کوہ ھای مریخی ‘ یا ’ کوہ ھای میناتوری ‘ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان پہاڑیوں کی وجہ سے زمین کا یہ ٹکڑا سیارہ مریخ کا منظر پیش کرتا ہے ۔ اس تصور کے ساتھ جب سیاح ان علاقوں میں آتے ہیں تو ان پر ایک سحرسا طاری ہوجاتا ہے، سوشل میڈیا بالخصوص انسٹاگرام پر ایسے لاکھوں ویڈیوز اور تصایر موجود ہیں جوایرانی سیاحوں کو اس سحرکی گرفت میں محصور دکھاتے ہیں۔ پاکستان نے ساحلی علاقوں کے تفریحی سیاحتی مقامات کو لینڈمافیا کے حوالے کرکے ان سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہے۔ وہاں اس طرح کی پہاڑیاں بھی نجی ملکیت کے طور پر فروخت کیے جاچکے ہیں ۔ منطقہ آزاد نے سیاحتی کمپنیوں کی ساتھ مل کر بلوچستان کی ساحلی پٹی کی فطری خوبصورتی کو سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ گزشتہ چار سالوں میں پسابندن سے لے کر تیس تک کی ساحلی پٹی پر داخلی سیاحت میں اضافہ منطقہ آزاد کی شاندار منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سیاحت کا براہ راست فائدہ مقامی لوگوں کو ہوتا ہے ، سیاحت کے فروغ کے لیئے سرمایہ گزاری حکومتی اداروں کی طرف سے کی جارہی ہے اور مقامی آبادی بغیر کوئی ٹیکس اد ا کیئے اس سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ صرف ایک نوروز کی چھٹیوں میں ریسٹورنٹ ، فوڈ شاپس اور رسیاحتی اقامت گاہوں کے بلوچ مالکان ملیون ہا تومان کماتے ہیں۔

چھبار کے تمام کاروباری سرگرمیوں میں بلوچ کی حصہ داری نمایاں ہے۔ گوادر میں ترقی کی کوئی سمت واضح نہیں اور اسے صرف ڈیپ سی پورٹ سے جوڑ دیا گیا ہے، جہاں مقامی لوگوں کو کم اجرت پر مزدوری ہی ملتی ہے۔ جب کہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ گوادر ، مشرقی بلوچستان کے دیگر علاقوں اور کراچی سے ہنرپیشہ بلوچ گزشتہ ایک دہائی میں کثیرتعداد میں ہجرت کرکے چھبار میں آباد ہوئے، جو ان شہری سہولیات اور ماحول کی وجہ سے ممکن ہو پایا جو چھبار میں میسرہیں۔ خود گوادر سے تعلق رکھنے والے ہنرپیشہ گھرانے چھبار کی کمائی کو گوادر پر ترجیح دے رہے ہیں، عالمی سطح پر ایرانی کرنسی کی بدترین حالت کے باوجود شاذ ونادر گوادر کے یہ گھرانے واپس اپنے آبائی شہر میں بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں، گوکہ حالات سخت معاشی مشکلات کی لپیٹ میں ہیں۔

چھبار میں ترقیاتی اور اقتصادی سرگرمیاں صرف چھبار پورٹ سے وابستہ نہیں بلکہ پورٹ سے زیادہ یہ لگ بھگ ایک سوپچاس کیلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور لاکھوں ایکٹر وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ مقامی بلوچوں کی اکثریت اپنے قدیم پیشہ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ محض ایک سو پچاس کیلومیٹر کی ساحلی پٹی پر ہر ساحلی گاؤں (گوتر کی فطری تاریخی بندرگاہ کو چھوڑ کر جو ایک سرحدی سیکورٹی نکتہ ہونے کے باوجود ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ مقامی لوگوں کی تحویل میں ہے ، جہاں چھوٹی فائبرماہی گیری کشتیاں آزادانہ شکار کرتی ہیں۔ پسابندن، بریس ، رمین اور چھبار میں ماہی گیری کی بندرگاہیں ہیں ۔ چھبار کی اس طرف کنارک ۔ لیردپ اور جاشک میں بھی ماہی گیری کی بندرگاہ ہیں، جاشک اور لیردپ کے بلوچ علاقے انتظامی طور پر ایران کے صوبہ ھرمزگان میں شامل ہیں) کی اپنی ماہی گیری کی بندرگاہ ہے۔ جہاں جدید آلات ماہی گیری سے لیس دیوہیکل کشتیاں لنگرانداز ہوتی ہیں، یہ تمام کشتیاں مقامی بلوچوں کی ملکیت ہیں کروڑوں کی مالیت کی ان کشتیوں کی جدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صومالیہ کے سمندری قزاق بلوچ ماہی گیری کی کشتیوں کو پکڑ کر انہیں سمندری جہاز پکڑنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

اس پٹی پر جھینگا کی فارمنگ اور انڈسٹریل زون بھی قائم کیئے گئے ہیں، جہاں مچھلیوں کی ٹین کی ڈبوں میں پیکنگ کی جاتی ہے۔ مچھلیوں کو اسٹور کرنے کے لیے کئی سردخانے بھی قائم کیئے گئے ہیں، جہاں مچھلیوں کو مارکیٹ تک لے جانے سے پہلے مناسب وقت تک اسٹور کیا جاسکتا ہے۔ مقامی بلوچ سرمایہ داروں کی ان فیکٹریوں اور جھینگا کی فارمنگ میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے یہ صنعتی زون خاطرخواہ طریقے سے پنپ نہیں رہا۔ دراصل مقامی سرمایہ دار ماہی گیری کی صنعت کے علاوہ کسی دوسری صنعت میں پیسہ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ دیوہیکل ماہی گیری کشتیوں کے بلوچ مالکان نے سالوں حکومتی سبسڈی سے مفت کی دولت سمیٹی ہے۔ وہ سبسڈی میں حاصل کیے گئے تیل کو غیرقانونی طور پر اسمگل کرکے گوادر میں فروخت کرتے تھے، جس سے ماہی گیری کی ترقی پذیر صنعت کو بریک لگ گئی۔ ماہی گیر چھوٹی فائبر کشتیوں کے ذریعے تیل کی اسمگلنگ سے پیسے کمانے لگے اور دیوہیکل کشتیوں کو اپنے جانشو (ملاح /خلاصی) کم کرنے پڑے، جو پہلے بیس سے تیس کے درمیان ہوتے تھے سکڑ کر چھ سے دس رہ گئے۔ اب کشتی مالکان کو تجربہ کار ملاحوں کی بھی ضرورت نہیں رہی ، تیل کی اسمنگلنگ کم تجربہ کار لوگوں کے ذریعے کی جانے لگی۔ لیکن اب آہستہ آہستہ ماہی گیری کی صنعت کی رونقیں لوٹ رہی ہیں لیکن یہ دولت ایسے کم پڑھے لکھے بلکہ ان پڑھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو سرمایہ گزاری کے ابجد سے واقف نہیں اور تو اور یہ لوگ مقامی انڈسٹریل زون اور چھبار کی فری ٹریڈ زون یا شہر کے کاروبار میں بھی پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں۔ ان کے شوق خلیجی ممالک کے شیخوں کے شوق سے کچھ کم نہیں ان کی پسندیدہ چیزیں شادی، لگژری گاڑی اور ایسے خوبصورت مکانات ہیں جو عموماً ان کے زیراستعمال بھی نہیں۔ ان کی دولت گردشی سرمایہ میں شامل ہونے کی بجائے بینکوں میں پڑی ہے، جس میں یہ ہر آئے دن اضافہ ہی کرتے رہتے ہیں حالانکہ اس ساحلی پٹی پر سرمایہ گذاری کے نادر مواقع سرمایہ گزاروں کو دعوت دے رہے ہیں ۔ فضو ل دولت کے لحاظ سے ان امیروں کو ایک مثال کی طرح مطالعہ کیا جاسکتا ہے، جو اگر اپنی بینکوں میں پڑی دولت کو منصوبہ بندی کے تحت استعمال کریں تو پورے بلوچستان کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔

وہاں گوادر میں مقامی لوگوں کے کاروبار میں کسی بھی سطح پر کوئی شراکت نہیں۔ مقامی ماہی گیروں کے پاس بڑی کشتیوں اور جدید ماہی گیری کے آلات کی بجائے محض چھوٹی کشتیاں ہیں، جو فی خاندان کے حساب سے اگر بانٹے جائیں تو ایک کشتی دس خاندان کی کفالت کررہی ہوگی، مگر مغربی بلوچستان میں بیشتر ماہی گیرگھرانوں کے پاس ایک سے زائد چھوٹی ماہی گیری کی کشتیاں ہیں، جس کی وجہ سے وہاں ماہی گیری کرنے والے مزدورں کی قلت ہے بیشترماہی گیر گھرانے اپنی خاندانی کشتیوں کے ذریعے شکارکرتے ہیں، جن کی آمدنی بہتر سہولیات اور حکومتی توجہ کی وجہ سے اطمینان بخش ہے۔ اب گوادر کی طرف دیکھتے ہیں تو ماہی گیر ایرانی ایندھن استعمال کرتے ہیں اور مغربی بلوچستان کی نسبت ان کی مچھلیاں کم قیمت میں خریدی جاتی ہیں، ہفتوں کی تھکادینے والی مشقت کے باوجود زیادہ تر ماہی گیر سیٹھوں کے قرض دار ہیں۔ سات سو میل طویل ساحلی پٹی پرکوئی قابل ذکر ماہی گیری کی بندرگاہ نہیں ۔ گوادر کی ماہی گیری کی بندرگاہ اپنی ساخت کے لحاظ سے کشتیوں کے لیے غیرموزوں ہے، جہاں لنگرانداز کشتیاں معمول کی ہواوں سے نقصان اُٹھاتی ہیں۔ اسی طرح پسنی کی بندرگاہ ریت میں دھنس چکی ہے۔ اتنے ہی طوالت پر اگر مغربی بلوچستان میں دیکھا جائے تو ماہی گیری کی چھوٹی بندرگاہوں کی بہتات ہے ۔ جیمڑی ، بندری ، پشوکان ، گنز ،گوادر کے مغربی خلیج پدی زر، سربندن ،کپر،پسنی ، ھورماڑہ ، کلمت اور کنڈملیر جیسے فطری بندرگاہوں کو بغیر انفراسٹرکچر کے رکھا گیا ہے۔

مغربی بلوچستان میں شہری سہولیات کے لحاظ سے پوری ساحلی پٹی کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کمی کواگر نظرانداز کیا جائے تو شہروں کے برابر سہولیات دی گئی ہیں۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے بھی سہولیات اگر بہترین نہیں مگر مشرقی بلوچستان کی نسبت بہتر ضرور ہیں۔ کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں بجلی کی سہولت اور سڑکیں موجود نہ ہو، چاہے گاوں میں دس گھرانے ہی کیوں نا ہوں۔ مراکز صحت اور ابتدائی تعلیمی مراکز کی موجودگی کو یقینی بنایاگیا ہے۔ گوادر کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے جب کہ چھبار کو درمیانے درجے کے ڈیموں کے علاوہ سمندری پانی کومیٹھا کرنے کے پلانٹ کے ذریعے پانی دیا جارہا ہے۔ جن مضافاتی علاقوں میں پائپ لائن نہیں سرکاری ٹینکرز گھر گھر مفت پانی پہنچاتے ہیں۔ کئی ساحلی قصبوں میں چھوٹے پلانٹ نصب کیے گئے ہیں جس سے اس اہم انسانی ضرورت کی تکمیل کی گئی ہے۔

تعلیم ، شہری سہولیات ، انفراسٹرکچر ، لوگوں کی معیار زندگی میں بہتر ی صرف چھبار اور گوادر کے درمیان ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے تمام شہروں میں یہی صورتحال ہے۔

یادرہے کہ دونوں طرف کے بلوچستان میں آبادی کا تناسب کم وبیش ایک جیسا ہے۔ آپ تربت او ر پھرگ (ایرانشھر) ، سراوان اور پنجگور ، دزاپ ( زاھدان) اور شال (کوئٹہ)کا تقابلی جائزہ لے سکتے ہیں۔ مغربی بلوچستان کے مرکزی شہردزاپ(زاہدان) کی یونیورسٹی آف سیستان اینڈ بلوچستان کا شما ر بلحاظ رقبہ ملک کے سب سے بڑے دانشگاہوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتاہے کہ وہاں زیرتعلیم اکیس ہزار طلباء و طالبات میں سے فی طالب علم کے لیے 35مربع میٹرکھلی جگہ یا سبزہ زار دستیاب ہے، جو کہ ملک کے دیگر علاقوں میں محض 7 مربع میٹر ہے۔ اس یونیورسٹی کے چار سابق سربراہ مغربی ممالک کے اعلیٰ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ تھے۔ درجہ بندی کے لحاظ سے ملک کے 477 یونیورسٹیوں میں دانشگاہ سیستان و بلوچستان تیسویں درجے پر ہے۔ صرف چھبار میں پرائیوٹ یونیورسٹی دانشگاہ آزاد کے علاو ہ مختلف شعبوں میں تین سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف چھبار (دانشگاہ بین المللی چابھار) ،انٹرنیشنل میڈیکل یونیورسٹی آف چھبار (دانشگاہ علوم پزشکی چھبار ) اور میرین یونیورسٹی آف چھبار(دانشگاہ دریانوردی و علوم دریایی چھبار )۔ اسی طرح پھرگ اور سراوان میں بھی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ جب کہ مشرقی بلوچستان میں پورے مکران میں صرف تربت میں ایک یونیورسٹی ہے۔

صحت کے شعبے میں ایران میں جو سہولیات ملک کے دیگر عوام کو میسر ہیں بلوچ بھی اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔ کمپنی ، ہوٹلز اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مزدوروں کا بیمہ کرنا لازمی ہے۔ گاڑیوں میں سفر کرنے والے مسافروں اور اسکول کے طلباء کو بھی لازمی بیمہ پالیسی کا حصہ بنایا گیاہے۔ روڈوں پر حادثات کا شکار افرادکامفت علاج ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو سرکار کی طرف سے مفت بیمہ کیا گیاہے، بیمہ کمپنی مریض پر اُٹھنے والے اخراجات کا قابل ذکر حصہ ادا کرتا ہے۔

ان تمام باتوں کا تفصیلی ذکر اس لیے نہیں کیا جارہا کہ میرا مقصد ایرانی حکومت کی تعریف ہے بلکہ راقم مغربی بلوچستان کی حقیقی تصویر پیش کرنا چاہتا ہے تاکہ ان لوگوں کو زمینی صورتحال کا ادراک ہو جو ہزاروں میل دور یورپ کی یخ بستہ فضاء میں رومانوی تصورات پال رہے ہیں۔ ان معلومات کا ہونا اس لیئے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی تحریک فضاء میں معلق نہیں رہ سکتی۔ مغربی بلوچستان میں نا مشرقی بلوچستان کے رہنے والے کوئی تحریک برپا کرسکتے ہیں نا یورپ میں سوشل میڈیا کا پروپیگنڈ ہ ٹول کے طور پر استعمال کرکے وہاں لوگوں کو ترغیب دی جاسکتی ہے ۔ بلوچستان کے منقسم خطوں میں خِلاکافی وسیع ہوچکا ہے اسے تدبر اور دانشمندی سے ہی پاٹا جاسکتا ہے۔ مشرقی بلوچستان میں جذبات کے برق رفتار گھوڑے پر نوجوانوں کو سوار کرکے ہماری قیادت نے کیا واقعی اب تک اتنا کچھ حاصل کیا ہے جو سماجی انتشار اور انسانی جانوں کے زیاں کا مدوا ہو؟ کیا آج ھیربیار، براھمدگ بگٹی اور ڈاکٹراللہ نزر اپنے علاقوں پر سیاسی ہولڈ رکھتے ہیں؟ کیا وہ عوام کی زندگیوں کو پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ اور فوجیوں سے تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا بین الاقوامی سطح پر ان کو اتنی حمایت حاصل ہوچکی ہے کہ وہ ایک اور جنگ لڑنے کے لیے کمر کس لیں؟

بلوچ اور دنیا کے دیگر دانشوروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امریکا اور یورپی طاقتیں بڑی سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک نے مشرق وسطیٰ میں کردوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر محکوم اقوام کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ان کی آزادی اور خودمختاری کی کسی بھی حالت میں حمایت نہیں کریں گے حالانکہ کردوں نے ایک مضبوط دفاعی فوج تشکیل دے کر عملاً اس بات کو ثابت کیا کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے اور اپنی ریاست کے دفاع کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کردستان نے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے آزادی کے لیے ریفرنڈم کا بھی اعلان کیا۔ لیکن یورپی ممالک نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ عراق میں شیعہ بالادستی اور ایران کے اثر و روسوخ سے پریشان سعودستان اور خلیجی ممالک نے بھی درپردہ عراقی حکومت کی حمایت کی۔ ایران نے کردستان کی طرف سے آزادی کے لیے ریفرنڈم کے اعلان کے بعد اپنی فوج کردستان میں داخل کی ۔ کردستان داخلی انتشار کا شکار ہوگیا اور کردوں نے بغیر کسی مزاحمت کے اپنی آزادی سے دست برداری اختیار کی۔ اس کے بعد ریاست کردستان کے رہنماؤں نے ایرانی حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ہی عافیت جانا۔

مشرقی بلوچستان میں ایک آزادی پسند گروہ جس کی سرگرمیاں گزشتہ پانچ سالوں میں بتدریج سکڑ کر محدود ہوچکی ہیں، سوشل میڈیا پر مغربی بلوچستان کی آزادی کاخود کو سب سے بڑا علمبردار ظاہر کرتا ہے، لیکن کیا مغربی بلوچستان کی آزادی کی تحریک فضاء مجازی سے فضائی حقیقی میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے یا کہ مذکورہ تنظیم اپنے دعوے کے مطابق مغربی بلوچستان میں اپنے قدم جمانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ یا مغربی بلوچستان میں کوئی ایسی تنظیم موجود بھی ہے جو آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اور مذکورہ گروہ اس کی حمایت کررہا ہے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ گروہ خود مشرقی بلوچستان میں اپنی گرفت کھوچکی ہے۔ مذکورہ گروہ کا قائد ماضی میں سرفیس سیاست کا قائل نہیں تھے، جس مزاحمتی تنظیم کا انہیں سرپرست مانا جاتا ہے اب اس کا شمار سب سے غیرفعال مزاحمتی تنظیموں میں ہوتا ہے، جس کا اب اپنے آبائی علاقے میں بھی زور نہیں رہا، کیا مذکورہ گروہ مشرقی بلوچستان کےحالات سے راہ فرار اختیار کرکے اب مغربی بلوچستان کے معاملے پر اپنی سیاست چمکانا چاہتا ہے؟

اگر غور کیا جاسکے تو اس تنظیم کی قیادت کی ناکامیاں طشت ازبام ہیں، جو اپنی ہی تنظیم کو نہیں سنبھال سکے جو تین دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، صرف اس ایک دھڑے کے علاوہ باقی دونوں دھڑے فعال ہیں بلکہ شہیدجنرل استاداسلم بلوچ کی قیادت میں الگ ہونے والی’ بی ایل اے‘ مختصرمدت میں بلوچوں کی منظم ترین عسکری تنظیم کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ ایسے میں اس سوال کوکیوں نظر انداز کیاجائے کہ مذکورہ گروہ کے پاس سنجیدہ منصوبہ، مناسب افرادی قوت اور سیاسی اہلیت موجود ہے؟

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ مغربی بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کے لیئے کوئی سیاسی تحریک سرے سے موجود ہی نہیں کہ جس کی حمایت کی جائے۔ مذکورہ گروہ کے وابستگان جیش العدل کی حمایت کرتے ہیں جو کہ ایک کٹرمذہبی تنظیم ہے۔ خود جیش العدل کے نصب العین اورمنشور کے مطابق وہ ایران میں سنی حقوق کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے ناکہ مغربی بلوچستان کی آزادی کے لیے۔ وہ ایران میں شیعہ رجیم کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کے ایجنڈے میں بطور الگ ریاست بلوچستان شامل نہیں۔ جیش العدل کو پاکستان میں ایسی مذہبی اور انتہاء پسند تنظیموں کی حمایت حاصل ہے جو بلوچ قومی آزادی کے خلاف سرگرم ہیں۔

میرے نزدیک مغربی بلوچستان میں بلوچوں کو درپیش سب سے اہم مسئلہ وہاں مذہبی تعصب اور جہادی سوچ کا فروغ ہے۔ وہاں کی قیادت سنی مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے، جو ایران کی مرکزی حکومت سے مراعات او ر مفاہمانہ تعلقات کے باوجوداپنے نجی حلقوں میں سنی شیعہ تعصب کو بڑھاو ا دیتے ہیں۔ سنہ 2009 میں ھیربیار مری کے ایک قریبی دوست نے مکالمے کے دوران مجھے قائل کرنے کی کوشش میں کہا کہ’ مغربی بلوچستان میں لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے کے لیے شیعہ سنی اختلاف کو ہتھیار بنانے میں کوئی قباحت نہیں ۔ ‘ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جن کی داڑھیاں بقول کسی پیٹ میں ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ بلوچ بھی خالص سنی نہیں۔ بلوچستان میں زگری اور شیعہ بھی ہیں۔ شیعہ فرقے کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے کیا شیعہ اورزگری فرقے سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو برابر کا شہری تسلیم کریں گے؟ موجودہ حالات میں بلوچستان میں تحریک کو کس طرح مذہبی لوگوں کے ہتھے چڑھنے سے روکا جاسکتا ہے؟ بالفرض ایسی کوئی صورت پیدا ہوئی تو کیا مغربی بلوچستان اور مشرقی بلوچستان میں پنپتی جہادی سوچ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جنہیں میں نے کبھی کسی پالیسی ساز ادارے یا بلوچ سیاسی سرکل میں نہیں سنا، بلاشبہ مغربی بلوچستان کٹر مذہبی سوچ کے حصار میں ہے۔ جہاں لوگ دلیل کی بجائےغیرعقلی ‘ گفتگو کرتے ہیں، وہاں ان مذہبی لوگوں کی اکثریت پاکستانی دینی مدارس کے زیر اثر ہے جو بلوچ قومی تحریک اور سرمچاروں کو غلط سمجھتے ہیں۔ مدارس کے طلباء پاکستان کے حق میں بیان کیے گئےقصائد اور جہادی ترانوں سے مدہوش ہیں اور پورے بلوچستان میں خاص مکتبہ فکر کے مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔ کیا کبھی کسی بلوچ دانشور ، سیاسی مدبر اور قائد نے اس صورتحال پر غورفرمانے کی زحمت کی ہے؟

اور مغربی بلوچستان کے جو بلوچ یورپی ممالک میں قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں وہ کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں اور ان کو یورپ میں رہتے ہوئے چالیس سال ہوچکے ہیں، ان کا بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں کیا کردار ہے؟ گنتی کے چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی لوگ بلوچ قومی تحریک سے لاتعلق اور شخصی مفادات کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم ہیں۔ یہ لوگ وہاں ان ایرانیوں کے قریب ہیں جو ایران میں موجودہ نظام کے مخالف ہیں لیکن مذکورہ ’ ایرانی لبرل فاشسٹ ‘بلوچستان کے حوالے سے انتہائی درجے کا تعصب رکھتے ہیں اور بلوچ قومی وحدت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ایران کے موجودہ نظام کے خلاف امریکا کی کسی ممکنہ کارروائی کے نتیجے میں غالب امکان ہے کہ یہی طبقہ ملک کے اقتدار پر مسلط کیا جائے گا، تب کیا بلوچوں کی حالت اتاترک کے ترکی کے کردوں سے بہتر ہوگی؟

کیا ضروری ہے کہ بلوچوں کو دو گروہوں کے مفادات کے درمیان سینڈوچ بنادیا جائے؟ پہلے اسے ایران کی موجودہ حکومت کے خلاف استعمال کرکے مروایا جائے اور پھر ایرانی لبرل فاشسٹوں کے ہاتھوں؟

میں مسلح جدوجہد کی اہمیت سے انکاری نہیں ، مسلح جدوجہد کی وجہ سے بلوچ قومی مفاد کو قبضہ گیرکی لوٹ مار سے تحفظ حاصل ہے ۔ لیکن کسی قومی تحریک کے لیے سیاسی اور سماجی طور پر جن اہداف کا حصول ضروری ہے اس طرف کوئی سنجیدہ اقدام نظر نہیں آتا۔ بلوچ سماج اپنے دور کے بدترین انتشار اور سیاسی انارکی کا شکار ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہے کہ خطے میں امریکا بہادر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مخالف طاقتوں بالخصوص ایران کے ساتھ فیصلہ کن پوزیشن اختیار کرنے کے اشاریے دے رہا ہے۔ یہ طویل مقالہ دراصل اسی پس منظر میں ضبط تحریر لایا گیا ہے کہ ان تیزی سے رونماء ہوتی ہوئی تبدیلیوں کو بلوچ لیڈرشپ اور سیاسی کارکنان کس طرح دیکھ رہے ہیں ، کوئی سنجیدگی بھی ہے یا نہیں؟

میرے امریکا میں مقیم ایک عزیز دوست کا مختصر تبصرہ ہے ’ امریکا بلوچ کا فطری اتحادی ہے ‘ کیا اس طرح کے جملے ہم دوہزار چار سے نہیں سن رہے؟ جب اس دوست نے کبھی خواب میں نہیں سوچا ہوگا کہ وہ ملک بدر ہوکر امریکا میں جا بسیں گے، امریکا نے اس دوران بلوچوں کو کس نوعیت کی ٹھوس مدد فراہم کی ہے۔ اگر ہم یہ تصور بھی کریں کہ درپردہ امریکا نے کچھ بلوچوں کو مدد کی ہے جنہوں نے وہ وسائل غلط طور پر خرچ کرکے ضائع کیے ہیں۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالیوں پر چپ سادھے ہوئے ہیں؟ یہی امریکا دنیا کے دیگر خطوں میں معمولی انسانی حقوق کے واقعات پر سخت ردعمل دیتا رہتا ہے لیکن بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کررہا ہے بلکہ پاکستان کو کھربوں ڈالر فوجی اور اقتصادی امداد بھی فراہم کررہا ہے، یہ ہمارا کیسا اتحادی ہے جو کہ ہمارے دشمن کو نواز رہا ہے؟

خطے میں امریکن بلاک کو بھی اگر غور سے دیکھیں تو اس میں پاکستان کے حامی ممالک موجود ہیں۔ جیسا کہ سعودی عرب اور اہم خلیجی ممالک جو پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے غیرمعمولی طور پر مدد کررہے ہیں۔ خلیجی ممالک میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ وہاں کثیرتعداد میں بلوچ کرایے کے فوجی بھی ہیں، جو ان کے مفادات کے لیے یمن اور دیگر جگہوں پرلڑمر رہے ہیں ۔ اس بات کو خلیجی حکام سمجھتے ہیں کہ ’البلوشی ‘ ایک نظرانداز کرنے والی قوم نہیں لیکن بلوچوں کی کمزور سفارت کاری اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے وہ بلوچوں کے گرد گھیرا ڈالنے میں پاکستان کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔ عمانی حکومت نے جس سے یہ توقع بعید تھا کہ وہ اپنے ملک کی چالیس فیصد آبادی کونظرانداز کرئے گی، عمان میں مقیم بلوچ رہنماؤں کو نظربند کیا گیا، جن میں قابل ذکر بی آرپی کے مرکزی رہنماء حسین اشرف اور بلوچی زبان کے نامور آزادی پسند شاعر میجر مجید ہیں۔ اسی طرح امارات نے گزین مری کو دباؤ میں لاکر سرینڈر کرنے پر مجبور کیا۔

میرے خیال میں یہ سب وہ پاکستان کی دوستی میں نہیں کررہے بلکہ اس کے پس پردہ امریکا کی خواہش بھی شامل ہے، کیوںکہ یورپی ممالک میں بھی بلوچ رہنماؤ ں کو اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا ہے جو امریکا اور یورپی ممالک کی قومی تحریکوں کے حوالے سے پالیسی کا حصہ ہے۔ ہمارے ایک کہنہ مشق بزرگ سیاسی رہنماء نے ایک دفعہ خیال ظاہر کیا کہ ’ اگر ہم ایران کی طرف واضح جھکاؤ کا اظہار کریں تو دنیا میں ہمارے دوست ممالک ہم سے ناراض ہوں گے۔ ‘

مجھے حیرت ہوئی ، کیوںکہ میں جانتا ہوں بلوچ سرمچار کس کسمپرسی کی حالت میں ہیں، معمولی بیماریوں کی وجہ سے شہید ہورہے ہیں ۔ ان کے خاندان مالی بدحالی کا شکار ہیں اور جنگی وسائل کی کمی ہے تو یہ دوست ممالک کون ہیں اور ان کی دوستی کا آج تک ہمیں کیا فائدہ ہواہے؟ میرے محترم استاد کے دوستوں کی اس فہرست میں ’ خلیجی ممالک ‘ بھی شامل ہیں جن کے بلوچوں کے خلاف اقدام کا میں اشارتاً ذکر کرچکا ہوں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں ہر ایک اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے، بیچارے خلیجی ممالک تو ہمیشہ سے امریکا کے رحم وکرم پر رہے ہیں، ان کی حیثیت امریکا کی کالونی سے زیادہ نہیں۔ اسی طرح بلوچوں کو خوش گمانیوں میں مبتلا رہنے کے بجائے بلوچستان کا موجودہ نقشہ، اپنی حالت اور پوزیشن کو دیکھ کر وہ فیصلہ کرنا چاہیئے جس کے دور رس اورمثبت نتائج حاصل ہوں۔ لیکن اس بات کا دھیا ن رہے کہ خطے میں سیاست کی ہوائیں اپنا رخ بدلنے میں دیر نہیں کرتیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔