دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق پریس کلب کے سامن وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3580 دن مکمل ہوگئے۔ دالبندین سے نور محمد حسنی، خیر محمد حسنی سمیت سیاسی و سماجی کارکنان نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2009 میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو محض اٹھایا تھا مگر اس معاملے کو حل کرنا ابھی باقی ہے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس نے سب سے پہلے 2007 میں مشرف حکومت دور میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تو انہیں معذول کیا گیا جس سے وکلا کی مشہور تحریک شروع ہوئی اور اس سے آخر کار جمہوری حکومت کی بحالی ہوئی، عوامی دباو کے تحت اور سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی چھان بین 2009 اور مئی 2010 میں دوبارہ شروع ہوئی اور حکومت نے لاپتہ افراد کے لیے بے اختیار تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔ اس وقت سپریم کورٹ کی کم از کم تین بینچیں اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان ہائی کورٹ کی بینچوں میں متعلقہ رشتہ داروں کی طرف سے دائر کردہ انفرادی اور اجتماعی درخواستوں کی سماعت ہورہی تھیں لیکن اس کے بعد آج تک لاپتہ افراد کے کیسز سپریم کورٹ و ہائی کورٹ نے سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے جبری گمشدگیاں کے عنوان سے ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے صوبے میں لاپتہ افراد کے لیے پاکستانی سیکورٹی فورسز کو مورد الزام ٹھہرایا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹارچر سیلوں میں رہنے والے افراد رہائی کے بعد بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
احتجاجی کیمپ میں موجود 09 جون 2018 سے لاپتہ امتیاز احمد ولد رضا محمد، 16 اگست 2014 سے جبری طور پر لاپتہ شاہ نواز مری ولد نظر محمد مری اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے ان کے گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہی دیتے ہوئے حکومتی اداروں سے گزارش کیا کہ ان کے پیاروں کو منظر عام پر لایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پیارے کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کرکے ملکی قوانین کے تحت سزا دی جائے۔
دریں اثنا مشرقی بائی پاس کوئٹہ کے رہائشی لاپتہ محمد اقبال لواحقین اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ان کے تفصیلات وی بی ایم پی کے پاس جمع کردیے۔
محمد اقبال کے لواحقین کے مطابق انہیں17 اپریل 2018 کو فرنٹیئر کور اور حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے گھر پر رات 12 بجے چھاپے کے دوران حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔