افغان طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے طریقہ کار پر مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔
ترجمان سہیل شاہین کے مطابق فریقین کی جانب سے نئی تجاویز پیش کی گئیں ہیں جو تنازع کے خاتمے کی طرف اہم قدم ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بھیجے گئے ایک آڈیو پیغام میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ تجاویز کا تبادلہ کیا گیا ہے تاہم حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے مزید بات چیت درکار ہے۔
امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے طالبان عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ اپنے 14 ہزار فوجیوں کے انخلا کے لئے ڈیڑھ سال کی مہلت چاہتا ہے۔ تاہم طالبان اسے 6 ماہ کی مہلت دینے پر رضا مند ہیں۔
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ دوحہ میں جاری بات چیت کے دوران پیش کی جانے والی نئی تجاویز میں کیا افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بارے میں کوئی نیا نظام الاوقات تجویز کیا گیا ہے یا نہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت میں اب تک فریقین کی توجہ کا محور افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور طالبان کی طرف سے یہ ضمانت ہے کہ افغانستان دیگر ملکوں کے خلاف اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دے گا۔
دوسری طرف امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا تھا کہ افغان تنازع کے پُر امن حل کے لئے پُر تشدد کارروائیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب افغان لویہ جرگے کے اختتام پر صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ اشرف غنی نے ماہ رمضان میں جنگ بندی کی بھی پیشکش کی تھی جسے طالبان نے مسترد کر دیا تھا۔
تاحال طالبان کے ترجمان کے بیان پر امریکی ردعمل نہیں آیا تاہم دوحہ میں مذاکرات کے دوران زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ فریقین امن کے لئے چار نکات پر متفقہ موقف اپنانے کی کوشش کریں۔ جن میں غیر ملکی افواج کا انخلا، افغانوں کے مابین مذاکرات، مربوط جنگ بندی بھی شامل ہے۔
خلیل زاد کے مطابق ان نکات پر اتفاق رائے کے بغیر حتمی سمجھوتہ طے پانا مشکل ہے۔
تاہم امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے اصرار کے باوجود طالبان جنگ بندی اور افغان حکومت سے بات چیت پر تیار نہیں ہیں ان کا موقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن سمجھوتہ طے ہونے کے بعد ہی وہ دیگر افغانوں سے بات چیت اور دیگر معاملات پر بات کر سکتے ہیں۔