مکران کے بعد نصیر آباد سے بلوچ خواتین و بچوں کو لاپتہ کیا گیا ہے – ماما قدیر

180

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3576 دن مکمل ہوگئے۔ سبی سے سیاسی و سماجی افراد نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ریاست معاشی حوالے سے کمزور ہوگا تو بحرانوں کے انبار میں جکڑ کر آخر کار ایک ایسے دہانے پر پہنچے گا کہ خود کو سنبھال نہیں سکے گا، دیکھا جائے تو پاکستانی ریاست بے شمار بحرانوں کے زنجیر میں جکڑتا چلا جارہا ہے، آئے روز انہیں نئے سے نئے چیلنجز درپیش ہورہے ہیں بلوچستان کے عوام مکمل طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ہوں تو یقیناً پاکستانی حکمرانوں کو اس بات سے شدید خوف لاحق ہوگا اسی خوف نے ریاست کی نیندیں اُڑا دی ہے۔ بلوچستان کو کنٹڑول کرنے کے لیے بے جا فوجی طاقت کا استعمال اور پاکستان کو بچانے کے لیے دہائیوں سے جاری نسل کشی میں آئے روز شدت لاکر نئے حربے استعمال کیئے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مکران سے بلوچ خواتین و معصوم بچوں کو اغوا کیا گیا اور اب نصیرآباد و ڈیرہ بگٹی سے خواتین و معصوم بچوں کو اغوا کیا گیا ہے جن کی شناخت دھنڈو زوجہ کریم بگٹی، شوزان زوجہ شے حق بگٹی، بجاری زوجہ شے حق، پاتی بنت کریم بگٹی، آٹھ سالہ جمیل ولد کریم بگٹی، بٹے خان ولد شے حق عمر چھ سال، زرگل زوجہ شے حق، تین سالہ آمنہ بنت شے حق اورنوربانک بنت شے حق کے ناموں سے ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا ریاست اتنا بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکا ہے کہ مرد، خواتین میں فرق نہیں کرسکتا ہے لیکن اس ظلم و جبر کے باوجود لاپتہ افراد کے لواحقین دن بدن مضبوط اور مستحکم ہوکر پاکستان پر حاوی ہورہے ہیں۔